تحریر رفعت انجم
انسان بہت سی چیزوں میں یکسانیت پسند نہیں کرتا۔ مسلسل ایک ہی کام کرنے سے اکتا جاتا ہے اس لئے اپنے معمولات تبدیل کرتا رہتا ہے۔ہفتہ وار چھٹی کا مقصد بھی معمول کے کاموں سے ہٹ کر انسان کو تفریح کا موقع فراہم کرنا ہے تاکہ اسے جسمانی کے ساتھ ذہنی سکون بھی ملے۔بعض اوقات تو اس کا ایک دو نہیں چھٹیوں پر گزارا نہیں ہوتا۔زیادہ کی خواہش کرتا ہے۔ جب ہم سکول میں ہوتے تھے تو یہی چاہتے کہ جیسےبھی ہو بس چھٹی مل جائے۔چاہے آندھی آئے یا سیلاب یا کوئی اور آفت بس کسی طرح سکول بند ہو جائے اور چھٹیاں مل جائیں۔۔۔یہ فکر ہی نہیں ہوتی کہ ہماری اس خواہش کے نتائج کیا ہونگے۔ لگتا ہے یا تو ہماری وہ خواہش اب پوری ہوئی ہے جو ایک ساتھ ایسی چھٹیاں مل گئیں یا آج کل کے بچوں کی دعاوں میں زیادہ اثر ہے۔ مگر اب مسلسل ان چھٹیوں سے ہر کوئی اکتا گیا ہے۔ انسان کی فطرت ہےکہ ایک جگہ ٹک کر بیٹھ نہیں سکتا ۔ ایک ہی حال میں ساری زندگی نہیں گزار سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاون کے باعث گھروں میں بیٹھنے سے تنگ آ گیا ہے ۔ کاروباری حضرات یا تو لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرتے پکڑے جاتے ہیں یا انتظار میں ہیں کہ کب حکومتی سندیسہ آئے گا اور کہا جائے گا کہ نکلو گھروں سے ۔۔۔ اسی طرح صعنت کار کارخانے ،مولوی صاحبان مساجد کھولنے کے مطالبات کر رہے ہیں ۔ٹیکسی،رکشہ ڈرائیورز اور عوام بھی اب لاک ڈاون ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سکول اساتذہ کے کندھوں پر بھی آن لائن پڑھائی کی ذمے داری لاد دی گئی ہے۔۔۔ لیکن اس تمام تر صورتحال میں جو مکمل طور پر احکامات پر خوشی خوشی عمل پیرا نظر آ رہے ہیں وہ ہیں سرکاری ملازمین۔۔۔ وہ ملازمین جو صبح آٹھ بجے کے بجائے نو بجے اس لئے حاضر ہوتے کہ صبح صبح کونسا افسر آتا ہے جو وہ جلدی جائیں۔۔ دوپہر کی نماز کے وقفے میں زیادہ وقت اس لیے گزارتے کہ دن تو بس ویسے بھی گزر گیا کل دیکھیں گے۔۔۔ وہ اہلکار جو چھٹی سے ایک گھنٹے پہلے اس لیے نکل جاتے ہیں کہ گھر پر بچے یاد آرہے ہیں ۔۔۔ تو جی جناب ہم ان معصوم ملازمین کی بات کررہے ہیں جو انتہائی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے بالکل بھی لاک ڈاون ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کررہے۔
کسی ایک ملازم نے بھی ضد نہیں کی کہ “ہمارے دفاتر کھول دو ہم کام پر جائیں ۔ یہ ہوتی ہے قانون کی پاسداری ،سرکار کی کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا ،،،،،،کورونا وبا میں اس وقت خیبر پختونخوا کے 18 اہم ضروری سرکاری محکمے یعنی محکمہ صحت ،داخلہ، بحالی وآباد کاری،خزانہ ،انتظامیہ ،ترقی ومنصوبہ بندی،خوراک،زراعت، ابتدائی و ثانوی تعلیم,پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ،لیبر،پبلک ہیلتھ،اطلاعات،بلدیات،کمیونیکیشن اینڈ ورکس،ایریگیشن،صنعت اور مائنز کے سیکرٹریٹ کم سٹاف کے ساتھ حالات سے نبرد آزما اور بغیر تعطل ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ مگر 14محکموں کے سیکرٹریٹ 19 مارچ سے بند اور ملازمین چھٹی پر ہیں ۔کوروناتو ایک بہانہ تھا ویسے بھی ماشاءاللہ پاکستان میں سرکاری محکموں کا نظام ایسا کہ دو ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ سال میں یوم مزدور، یوم آزادی، عیدین، محرم کی تعطیلات لازمی ہیں اور کبھی کبھار ایمپلائز ایسوسی ایشنز ہڑتال کی کال دیں تو سونے پر سہاگہ ،،تین سو پینسٹھ دنوں میں تو اب تک 40 چھٹیاں گزر گئی ہیں ایسے ہی سالانہ چھٹیاں الگ ،پورے سال میں ہفتہ وار چھٹیاں لگ بھگ 96 بنتی ہیں اور مزید نہیں معلوم کورونا وبا سرکاری ملازمین کی چھٹیاں کتنی بڑھا سکتا ہے،،تو اس بار تو وارے نیارے ہیں۔ چلو مان لیتے ہیں کہ تاجر،سیٹھ،صنعت کار اپنے بزنس کا سوچ رہے ہیں ،مزدور اپنی دیہاڑی کا ہوٹل مالکان اپنے خرچ کا ،مولوی صاحبان اللہ کے گھر آباد کرنے کا ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین سوچیں بھی تو کس چیز کا،کیونکہ تنخواہیں وقت پر،الاونس ،مراعات وغیرہ سب ملے گے ،کام ہو یا نہ ہو کیونکہ یہ سرکار کا دردسر ہے ان کا نہیں،،پاکستان کو بنے دہائیاں گزر گئیں مگر سرکاری دفاتر کا نظام کب درست ہو گا یہ اللہ ہی جانے ،،دنیا میں آن لائن میٹنگز ہو رہی ہیں مگر یہاں اب تک سرکاری امورپرانے طور طریقوں سے انجام پاتے ہیں۔ دفاتر بند ہونے سے کتنے اہم کام رک چکے ہیں،،جو فائلیں مہینوں کے عمل سے گزر کر کہیں جا کر صاحب کی میز تک پہنچتی ہیں ایک دستخط کے لئے۔دفاتر بند ہونے سے اب اس میں مزید تاخیر ہو گی اور سائلین کو مزید انتظار کی زخمت اٹھانی پڑے گی،،لیکن پھر بھی ہمیں امید ہے کہ اس وباء سے نمٹنے کے بعد ان دفاتر میں بیٹھے اہلکاروں کے لیے بھی کام کا مستقل طریقہ ڈھونڈ لیا جائے گا۔ ورنہ لگتا ہے کہ آجکل ان کا یہ قول بن چکا ہے میری چھٹی میری مرضی
“میری چھٹی میری مرضی :تحریر رفعت انجم” ایک تبصرہ