داستان مسرت.. جس میں مسرت صرف نام کو باقی ہے
اسلام آباد ائیرپورٹ آتے ہوئے یہ خواہش تھی کہ جس پٹھان دوست کیساتھ آیا ہوں وہ میرے ساتھ ہی بیٹھے اور میں اس کے تجربے سے مستفیض ہو جاؤں لیکن میری بدقسمتی کہ اسے بورڈنگ کارڈ پہلے ملا تھا اس لئے جہاز میں آگے بیٹھ گیا جبکہ میری سیٹ پچھلے سیٹوں پرتھی -جس وقت اعلان ہوا کہ بنکاک جانیوالے مسافر لائن میں لگ جائیں تو اللہ کی شان ہماری پاکستانی بھائی ایسے بھاگے لائن کی طرف جیسے کہ جہاز میں سیٹیں ختم ہو جائینگی وہ دھکم پیل ہم نے دیکھی میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ چونکہ ہم خیبر پختونخوا والے لوگ ہر شعبے میں پیچھے ہیں اس لئے اگر ہم بھاگ کر جلدی بیٹھنے کی کوشش کریں تو کوئی تک بنتی ہیں لیکن اللہ کی شان پنجاب کے مختلف علاقوں سے آنیوالے لوگوں نے وہ دھکم پیل کی کہ مجھے تو حیرانی ہوئی – وہ تو شکر ہے کہ سیکورٹی اہلکار کھڑے تھے اور لائن میں مسافروں کو کھڑا کررہے تھے اور ہم سارے پاکستانی اسلام آباد ائیرپورٹ پر لائن سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ جلدی نکل جائیں جبکہ جو غیر ملکی ہمارے ساتھ جہاز میں جار رہے تھے آرام سے ہم لوگوں کی دھکم پیل کو دیکھ رہے تھے –
تھائی ائیر لائنز کی جہاز میں بیٹھے تو رنگوں کی بہار آگے پیچھے جارہی تھی ائیرہوسٹس نے چار رنگوں کے کپڑے پہنے تھے اور جس طرح ہم لوگ معافی مانگتے ہیں اسی انداز میں ہاتھ میں ائیر ہوسٹسز نے ہاتھ باندھے تھے ہر آنیوالے کو “سوادی کاپ “کہہ رہی تھی یعنی یہ ان کی ہیلو تھی جو وہ ہم مسافروں کو کہہ رہی تھی-جس وقت میں اپنے سیٹ پر بیٹھ گیا اس وقت ایک دوسرا پٹھان میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا اس کے بیٹھنے کے انداز سے پتہ چلا کہ موصوف نے پہلی مرتبہ پینٹ پہنی اوپر سے چترالی ٹوپی بھی پہن کر آگیا تھا لیکن خاموش طبعیت کا تھا اس لئے آکر بیٹھ گیا اور میگزین کی پڑھائی شرو ع کردی-
ایک ائیرہوسٹس آئی اس نے مائیکروفون دیا کہ اگر گانے سننے ہیں تو اس کے ذریعے سنو میں نے مائیکروفون لگایا اور تھائی زبان کا ایک گانا لگایا گانے کے بول تو سمجھ میں نہیں آرہے تھے لیکن جس طرح ہمارے ہاں موسیقی اداس ہوتی ہیں اسی طرح ایک باریک آواز گلوکارہ کی تھی اور پرسوز انداز میں موسیقی تھی مجھے ایسے لگا جیسے موسم غمگین ہے اور کوئی شخص برتن زمین پر اٹھا کر مارتا ہو اور جس طرح ان برتنوں کی آواز نکلتی ہے ایسی ہی گانا سن رہا ہوں – کچھ ہی لمحوں میں جہاز روانہ ہوا میں نے ائیرہوسٹسز پر نظر دوڑائی تو عجیب سے سپاٹ سے چہرے تھے ہنستی تھی تو صرف دانت نکل نظر آتے تھے اسی دوران ائیرہوسٹس نے تھائی اور انگریزی زبان میں بتا رہی تھی کہ ابھی ہمارا جہاز اسلام آباد سے روانہ ہوگیا ہے اور لاہور اور دہلی سے ہوتا ہوا بنکاک تک جائیگا اور ہمارا یہ سفر چھ گھنٹے تک کا ہے کچھ ہی لمحوں میں ائیرہوسٹسز نے کھانے پینے کی اشیا رکھنی شرو ع کردی ائیرہوسٹسز مسافروں سے پوچھتی کہ مسلم کھانا میں نے بھی جواب دیا کہ ہاں تو مجھے ایک پلیٹ دیا جس میں چاول تھے میں دعا کررہا تھا کہ ایسے نہ ہوں کہ یہ کھانے کیلئے سٹک دے ورنہ اسے پھر کون کھائیگا لیکن شکر ہے کہ کانٹا اور چھری ساتھ میں تھا اس لئے اللہ کا نام لیکر کھانا شروع کردیا-
کچھ لمحوں بعد ائیرہوسٹسز نے کھانے پینے کا سامان اٹھانا شروع کردیا تو مجھے ایسا لگا کہ یہ لڑکیاں تبدیل ہو گئی ہیں پھر غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ وہی لڑکیاں ہیں لیکن انہوں نے کپڑوں کے کچھ حصے تبدیل کردئیے ہیں اس لئے عجیب سے لگ رہی تھی دل میں خیال آیا کہ یہ تو ہمارے خواتین سے بھی زیادہ ہے جو شادیوں مہندیوں میں میں چار چار جوڑے تبدیل کرتی ہیں لیکن تھائی ائیر ہوسٹسز ان سے بھی زیادہ تیز نکلی -خیر پھر سوچا کہ ایشیائی ملک ہے سو ان کی خواتین بھی ایسی ہی ہونگی جس وقت ائیرہوسٹس میرے سیٹ سے سامان اٹھانے لگی اس وقت جہاز کو دھچکہ لگامیں سمجھا کہ بڈھ بیر کے بس میں بیٹھا ہوں ایسے وقت میں ائیرہوسٹس سے کچھ سامان مجھ پر گرا اور وہ بھی میرے سیٹ پر آن گری موصوفہ نے جلدی سے اپنے آپ کو اٹھا لیا اور سامان اٹھانے کے بعد اتنی معافی مانگی کہ مجھے شرمندگی ہوگئی اور میرا دل کر رہا تھاکہ یہ آتے جاتے میرے سیٹ پر اسی طرح گرتی رہی لیکن یہ آرزو پھر پوری نہیں ہوئی- جہاز تو محو سفر تھا لیکن کبھی کبھی باڑے کے بس جو کہ پشاور سے باڑہ تک چلتی ہیں اور اپنی تیز رفتاری اور مخصوص آوازوں کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی اسی طرح آوازیں آنی شروع ہو جاتی اور میں یہ سوچنا لگتا کہ میں بنکاک جارہا ہوں یا پھر پشاور سے باڑہ – پتہ چلتا کہ موسم خراب ہے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے یہ جھٹکے لگتے ہیں میں نے بہت کوشش کی کہ نیند آجائے لیکن اسے نہ آنا تھا اور نہ آئی بیٹھ کر بھی دل بھر گیا کچھ لمحوں بعد ائیرہوسٹس نے ایک فارم دیا کہ یہ بھر دیں کیونکہ یہ آپ سے ائیرپورٹ پر مانگیں گے جسے بھر دیا اور اتنے خیال سے بھر دیا کہ جیسے میں سی ایس ایس کا امتحان دے رہا ہوں –
آدھ گھنٹے بعد آواز آئی کہ ہم بنکاک ائیرپورٹ پہنچ رہے ہیں اس لئے اپنے بیلٹ باندھ لے جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو روشنیوں کی ایک لائن دیکھی بہت ساری گاڑیاں آجارہی تھی جہاز نے جھٹکا لیا اور پھر وہی دھکم پھیل شروع ہوگئی کہ حیران رہ گیا یہاں بھی عجیب بات یہ تھی کہ جو تھائی اور دوسرے غیر ملکی ہمارے جہاز میں تھے آرام سے بیٹھے تھے جبکہ ہمارے پاکستانی جہاز سے نکلنے کیلئے کوشاں تھے ہر کوئی بیگ اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کررہا تھا حالانکہ جہاز ابھی رکا بھی نہیں تھا میں نے اپنے دوست جو کہ پشاور سے اسلام آباد تک میرے ساتھ آیا تھا کو دیکھنا چاہا کہ اس سے مدد لے لونگا لیکن وہ بھی نظر نہیں آیا اور میرے دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ اللہ میری عزت رکھنا کیونکہ ایڈریس کا بھی نہیں پتہ تھا اور دوسرا شہر بھی دوسرے ملک کا – زندگی میں پہلی مرتبہ بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں مسلسل چلتی ہوئی دیکھی ہمارے ہاں پشاور میں بھی تھی لیکن وہ صرف دیکھنے کیلئے ہے کیونکہ بجلی ہوتی نہیں ایسے میں میں اپنے آپ کو ایسے محسوس کررہا تھا کہ جیسے کوئی مینڈک کنویں سے نکل کر سمندر میں آجاتا ہے اور اسے حیرانگی ہوتی ہے کہ میرے کنویں میں تو ایسا نہیں ہوتا بالکل ایسے احساسات میرے تھے صبح کے چھ بجے ہونیوالے تھے ہم سب مسافر امیگریشن کیلئے لائن میں کھڑے ہوگئے تھائی امیگریشن کے حکام مسافروں کو بھگتا رہے تھے لیکن انداز سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ لوگ تھکے ہوئے ہیں- عجیب سے خاموشی تھی اور سب لوگ خواہ وہ بوڑھے تھے کہ جوان بچے تھے کہ خواتین آرام سے ہاتھوں میں پاسپورٹ لئے کھڑے تھے اور اپنے نمبر آنے کا انتظار کررہے تھے کسی کو یہ جلدی نہیں تھی کہ لائن سے نکل جائے –
میں نے بھی اپنے دور طالب علمی کی یادتازہ کردی کہ جولوگ امیگریشن آفیسر کے سامنے جاتے ہیں ان سے کیسے سوال کئے جاتے ہیں تاکہ وہ میں بھی سن لوں اور ان کی طرح جواب کا رٹا لگاؤں لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا جس وقت میری باری آئی امیگریشن آفیسر نے مجھ سے سوال کیا کہ تعلیم کیلئے آئے ہوں میں نے جواب دیا کہ نہیں تو اس نے پوچھا کہ تمھارا تو ویزہ طالب علم کا ہے میں نے اپنا تعارف کروا دیا کہ بھائی میرے میں ٹریننگ کیلئے آیا ہوں پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کونسے ادارے کیساتھ ہوں کارڈ دیکھنے کے بعد اس نے مجھے جانے کا کہا اور کہا کہ گیٹ نمبر چار پر اپنا بیگ اٹھا لو اگر تمھارے پاس کوئی سامان ہے جس وقت میں وہاں پر پہنچ گیا بیگ اٹھا یا اور باہر کی طرف چل پڑا –
دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ خیر کرے پہلی مرتبہ ملک سے باہر نکلا ہوں ائیرپورٹ کے باہر کی طرف جانیوالے گیٹ کی طرف آیا تو دیکھا لوگوں نے بینرز پر نام لکھے ہوئے اٹھا ئے تھے میں بھی خوش ہوگیا کہ چلو جس نے میرا نام اٹھایا ہوگا اس کے پاس چلا جاؤ نگا لیکن اپنی ایسی قسمت کہاں – میں دل میں سوچ رہا تھا کہ میں نے تو باقاعدہ اطلاع دی تھی کہ میں دو دن پہلے آرہا ہوں اور متعلقہ آرگنائزر نے کہاتھا کہ ائیرپورٹ پر لینے کیلئے ہمارا بندہ آجائیگا لیکن یہاں تک کوئی نہیں آیا اب کیا ہوگا-تھائی لڑکیاں ائیرپورٹ پر کھڑی کوئی لپ سٹک ٹھیک کررہی تھی اور کوئی ناخن پر نیل پالش لگانے میں مصروف تھی سب کے چہرے ایک جیسے تھے -میرے جیسا بندہ جس نے خواتین کو مشرقی لباس میں دیکھا ہو وہ ائیرپورٹ پر یا تو خاتون کو سوٹ میں دیکھے یا پھر جسے ہمارے چڈی کہا جاتا ہے اس میں دیکھے تو کیا حالت ہوتی ہے یہ بتانے کا نہیں – وہ لڑکیاں بھی کسی ہوٹل کی سیلز ڈیپارٹمنٹ کی تھی جو لوگوں کو ریسیو کرتی ان سے بات کرتی اور پھر فون کرکے مسافر کو گاڑی میں بٹھا دیتی تھی وہ میرے پاس بھی آئی سوال کیا کہ ہوٹل کمرہ چاہئیے لیکن میں نے انکار کیا اورسائیڈ پر بیٹھے کرسیوں پر بیٹھ گیا کہ شائد مجھے ریسیو کرنا والا بندہ لیٹ ہو بیس منٹ تک انتظار کرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا تو ائیرپور ٹ پر آوارہ گردی شروع کردی لوگوں کی بڑی تعداد جن میں یورپین شامل تھے سیر کیلئے آرہے تھے اور ہر ایک اپنی دنیا میں مگن تھا کسی کو یہ احساس نہیں کہ کس نے کونسے کپڑے پہنے ہیں کس سٹائل کے بال ہیں بس اپنے کام سے کام رکھنا -ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے کپڑوں اورسٹائل دیکھ رہاتھا خصوصا خواتین کی کہ اللہ معاف کرے اس سے تو نہ پہننا اچھا تھا لیکن بس چل چلاؤ والا کام تھا -میں توبہ توبہ بھی کررہا تھا اور لڑکیوں کو کن انکھیوں سے بھی دیکھ رہا تھا – کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس جگہ آیا جہاں پر لوگوں نے نام اٹھا رکھے تھے تو کسی نے میرا نام کا کارڈ نہیں اٹھایا تھا اور میں اس دن کو کوس رہا تھا کہ کیوں دو دن جلدی آگیا -پھر خیال آیا کہ موبائل میں میرے پاس تو نمبر ہے اس پر ٹرائی کرتا ہوں انہی ہوٹل کے سیلز کے شعبے کی خواتین سے ملا اپنا مسئلہ بیان کیا انہوں نے پوچھا کہ کوئی نمبر دیا ہے تو ہمیں دے دیں نمبر ملنے کے بعد اس نے اپنے موبائل سے ملا لیا اور کہا کہ تمھارے مہمان آیا ہے اور ائیرپورٹ پر خوار ہورہا ہے اس لئے آکر اس پاکستانی کو لے جاؤ-وہاں سے اسے کہا گیا کہ اس پاکستانی کو کہو انتظار کرے پندرہ منٹ میں پہنچ رہے ہیں-
اس مسئلے کی وجہ سے ٹینشن کم ہوگئی تو کرسی پر بیٹھ پر لوگوں کو تاڑنا شروع کردیا کچھ عجیب سے لوگ تھے ہر کوئی بھاگ رہا تھا لیکن ان لوگوں کی یہ بھاگ دوڑ بھی ایک منظم انداز میں تھی کوئی یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ یہ مرد ہے یا لڑکی -ایسے میں ایک عورت آئی اور مجھ سے پوچھا کہ بھارت سے تعلق ہے تو میں نے جواب دیا کہ نہیں پاکستان تو پھر ہیلو ہائے ہوگئی پتہ چلا کہ موصوفہ اپنے سات سال کی بیٹی کے ہمراہ نیوزی لینڈ جارہی تھی اس کا شوہر آگے تھا خاتون نے بتایا کہ اس نے اپنی چھٹیاں دہلی میں گزارکے آرہی ہیں اوراپنے فیملی کیساتھ ملنے کا اپنا مزہ ہے -اس وقت ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اور میرے ساتھ ہاتھ ملانے لگا اس نے اپنا تعارف کروایا کہ یونیورسٹی کا طالب علم ہو اور رضاکار ہوں اورتمھیں لینے کیلئے آیا ہو ں اس نے معافی مانگی کہ برا مت ماننا تمھیں انتظار کرنا پڑا لیکن ٹریفک جام تھی اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیش ہوا اور لیٹ آیا اس نے میرا بیگ اٹھایا میں نے بھارتی خاتون اور تھائی لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے رضاکار میزبان کیساتھ روانہ ہوا میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی میرے یہ تو بتاؤ کے ڈالر کہاں سے تبدیل کرنے ہیں وہ مجھے ایک بوتھ پر لے گیا اس وقت ایک ڈالر کے 33 بھات ملتے تھے یہاں آکر اپنے روپے کی بے وقعتی کا احساس ہوا ہمارے ہاں ڈالرر اس وقت 86 روپے کا تھا اب تو اور بھی بہت آگے جارہا تھا لیکن یہ بھی ایک ایشیائی ملک تھا اور ہم بھی ایشیا میں -ہم کہاں جارہے ہیں ہماری معیشت کہاں جارہی ہے اور لوگ کہاں جارہے ہیں -خیر ٹیکسی میں بیٹھے ان کی ٹیکسی بھی ہمارے نوابوں کے گاڑیوں سے اچھی تھی اس رضاکار نے اپنا نام تنگ بتایا تھا جس ادارے کیساتھ میں ٹریننگ کرنے آیا تھا وہ وہاں پر انٹرن شپ کررہا تھا میں نے اس سے پوچھا کہ چونکہ ابھی تو دو دن ٹریننگ میں رہتے ہیں اس لئے کوئی سستا سا ہوٹل مجھے بتا دو جہاں پر میں رہائش کرسکوں ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ سستے کمرے کی قیمت 33ڈالر تک ہے اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ خیر کرے لیکن تنگ بہت تیز تھا چھوٹے سے قد کے اس لڑکے نے بنکاک کے شہر کے بارے میں بتانا شروع کردیا لیکن اس کی جتنی انگریزی تھی اس کے مقابلے میں میں اپنے آپ کو انگریزی زبان کا پی ایچ ڈی سمجھ رہا تھا لیکن بین الاقوامی زبان اشاروں کی زبان میں بتایا کہ کوشش کروں کہ مجھے دس ڈالر تک کوئی کمرہ ملے ا س نے گیسٹ ہاؤسز دیکھنے شروع کردئیے اور ایک گلی میں داخل ہوگیا اور گیسٹ ہاؤس میں جا کر بات کی اس نے مجھے بلایا اور مجھے کمرہ لیکر دیا 860 پاکستانی روپے میں مجھے کمرہ مل گیا یہ بھی ہماری ذہنیت ہے کہ جب ڈالر میں ادائیگی کرتے ہیں تو پہلے موبائل اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ پاکستانی روپے میں اس کی ویلیو کتنی ہے خیر کمرہ لے لیا ایڈوانس پیمنٹ کردی اور وہ رضاکار مجھے کہنے لگا کہ تم آرام کرو میں دفتر میں جا کر انفارم کرتا ہوں پھر نکلیں گے اور میں کمرے میں داخل ہو کر سونے کی کوشش کرنے لگا-
)سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی ساتوں قسط(