تھائی لینڈ کا ویزہ.. اسلام آباد کا سفر اور دغہ دغہ وائی وائی
تھائی لینڈ کے ویزے سے متعلق معلومات حاصل کرنا بھی بڑی بات ہے . تھائی لینڈ کے لوگوں کی تصویر انٹرنیٹ پر دیکھنی شروع کردی یہ نہ چینی ہے نہ جاپانی . دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا بیرون ملک ہے ہم تو گوریوں کے چکر میں جانے والے تھے جبکہ تھائی لینڈ کے لوگوں کی تصاویر دیکھ کر ایسا لگا کہ ہمارے ارمانوں پر پانی پھر گیا ہو .یعنی بندہ باہر بھی جائے اور اچھی صورت بھی نہ دیکھے تو یہ بھی زیادتی ہے. لیکن پھر دماغ میں یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ بھائی صاحب کونسا تمھاری جیب سے پیسے جارہے ہیں مفت میں تو جارہے ہو ایسے میں انگریز گوریاں تو نہیں مل رہی تو کونسی قیامت آجائیگی . دل تو بہل جائیگا .
اسی سوچ سے دل کو بہلا کر ہم نے کچھ دوستوں سے جو ہماری ہی طرح کے ہیں یعنی دیکھنے میں لگتے لکھ پتی ہیں مگر اندر سے ہماری طرح ہی ہیں یعنی ککھ پتی.خیر ویزے کیلئے پیسے لئے کہ بعد میں تنخواہ میں دیدیں گے. اور اس ساتھی سے رابطہ کیا جس نے معلومات دی تھی اس وقت وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھا اور پشتو کے ایک ٹی وی چینل کیلئے کام کررہا تھا . اس نے کہہ دیا کہ ہفتے کے آغاز میں چلے جائینگے دونوں ویزہ بھی اپلائی کرینگے پھر میں اپنے دفتر چلا جاؤنگا اور تم پشاور واپس چلے جانا. چنانچہانٹرنیٹ سے تھائی لینڈ کے ویزہ فارم ڈاؤن لوڈ کئے . ساتھ میں اضافی فارم بھی ڈاؤن لوڈ کردئیے اور ایسے ڈر کے مارے اس میں لکھا ئی کی کہ جیسے امریکی صدرسے ملاقات ہو اور اس کیلئے فارم پرساری معلومات دینی ہو . ساتھی سے معلومات لی کہ کب جانا ہے اس نے وعدہ کرلیا کہ پیر کے دن جائینگے .اور ہم ویزہ فارم میں تمام معلومات لکھنے کے بعد بار بار دیکھتے ہوئے اسے سو گئے.
باہر جانے اور ویزہ لگانے کی خوشی میں رات گئے تک نیند نہیں آرہی تھی خیر کسی نہ کسی طرح سو گیا اور مقررہ وقت صبح چار بجے اٹھ گیا تو پہلے سے تیار شدہ کپڑوں پر استری پھیرنے کیلئے بیگم کو ہدایت کی اور ساتھ میں کہہ دیا کہ شوز پر پالش بھی دوبارہ کردینا . بیگم کو بھی عجیب سی صورتحال کا سامنا تھا یعنی پشتو زبان کے بقول” حق حیران ” تھی کہ میرے میاں کو کیا ہوگیا ہے کہ استری شدہ کپڑوں کو دوبارہ استری کرنے کی ہدایت کررہا ہے. جوانی کا دور تھا اس لئے کلین شو کرتے ہوئے بلیڈ کو اتنی مرتبہ چہرے پر مارا کہ متعدد جگہوں پر کٹ بھی لگ گیا لیکن چونکہ دل میں اسلام آباد اور پھر تھائی لینڈ کا ویزہ تھا اس لئے ہم نے زخموں کومحسوس نہیں کیا.دوست کو فون کیا تو موصوف نے موبائل فون اٹھانے کی زحمت نہیں کی کئی مرتبہ فون کرنے کے بعد جب دل ہی بھر گیا کہ یہ کیا مصیبت ہے کہ ساتھ دینے والا دوست ہی فون نہیں اٹھا رہا یعنی آغاز میں ایسا ہوگیا تو پھر کیا ہوگا . فون بند کیا اور بیٹھ گیا کہ دوست کا فون آگیا کہ معذرت خواہ ہوں رات کو لیٹ سوگیا تھا اس لئے نیند میں فون کی گھنٹی سنائی نہیں دی .بھرے دل سے میں نے پشتو زبان میں جتنی گالیاں تھی اس دوست کو دیدی کہ تمھاری وجہ سے لیٹ ہورہے ہیں پھر اس نے کہہ دیا کہ تم پشاور کے بس ٹرمینل پہنچو میں پہنچ رہا ہوں.
گھر سے نکلتے وقت اپنے اوپر پرفیوم کا سپرے کیا اورچونکہ ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا اس لئے گھر سے نکلتے وقت امی سے خصوصی دعائیں لیں ، بیگم کو بڑے رعب سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اب تو ویزہ لگانے جارہا ہوں ویزہ لگ جائیگا تو پھر تمھیں میں بتا دونگا. کہ میں ہیرو ہوں کہ نہیں ، اس غریب کو تو یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے مجھے کسی زمانے میں یہ کہا تھا کہ گوریاں تمھاری انتظار میں ہونگی . لیکن میں بھی بڑے موڈ میں تھا یعنی پشتو زبان کے ” پہ ٹشن کے ووم” .
گھر سے نکل کر راستے میں جاتے ہوئے رکشہ نہیں ملا اس لئے پیدل چل نکلا سڑک پر کتوں کو دیکھ کراپنے اوپر “صم بکم عم فھم لایرجعون” پڑھتا تھا کہ کہیں “کتے ” اپنے دانتوں کی چیکنگ میرے گوشت سے نہ کریں اور ویزے کیلئے جانے کے بجائے ہسپتال پہنچ جاؤں . پتہ نہیں کتوں کو دیکھ کر ایسی سٹی گم ہو جاتی ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا. حالانکہ کچھ کتے ہماری طرح “بے ضرر” ہوتے ہیں لیکن چونکہ کتے ہوتے ہیں اس لئے ڈر لگتا ہے. کتوں سے ڈر کی وجہ سے میں نے میٹرک سے قبل جو عشق کیا تھا اس میں بھی ناکام رہا کیونکہ جس خاتون سے مجھے نوجوانی میں عشق ہوا تھا اس کے گھر میں کتا تھا اس لئے “ان کے گھر تو دور کی بات گلی میں جاتے ہوئے”بھی ڈر لگتا تھا جس کا خمیازہ بعد میں ہمیں بھگتنا پڑا-شائد یہی وجہ بھی ہے کہ کتوں کو دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے ڈر بھی لگتا ہے ، کیا پتا وہ بھی ہمیں اسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں۔
خیر کہاں کی بات کہاں تک چل نکلی گھر سے نکل کر میں پیدل ڈرتے ڈرتے بس ٹرمینل بھی پہنچ گیا ، دوست سے رابطہ کیا جس نے کہہ دیا کہ بھائی فلائنگ کوچ میں بیٹھ جانا میں پہنچ رہا ہوں ، اس کے کہنے پر ایک فلائنگ کوچ میں بیٹھ کر دوسیٹیں بک کرلی ، مگر وہ صاحب نہیں پہنچے ، گاڑی میں سواریاں بھرتی گئی کیونکہ پشاور سے اسلام آباد جانے والے زیادہ تر افراد نوکر پیشہ افراد کی ہوتی ہیں اس لئے صبح پونے چھ بجے گاڑیاں جلدی بھر جاتی ہیں .
فلائنگ کوچ کے کنڈیکٹر نے مجھے کہہ دیا کہ بھائی آپ کا ساتھی کب تک آئیگا اور میں آرہا آرہا کی گردان کرتے اسے انتظار کرنے کا کہتا رہا لیکن میرے ساتھی نہیں آئے اور آخر کار کنڈیکٹر نے جو میرے پینٹ اور شرٹ کو دیکھ کر ذرا مرعوب ہوا تھا آخر میں کہہ دیا کہ”بس دے مڑہ کوزیگا بل گاڑی کے بہ لاڑ شے”بس ہے بھائی اتر جاؤ کسی اور گاڑی میں چلے جاؤ صبح کا وقت ہے ہماری مزدوری خراب مت کرو،دو مزید فلائنگ کوچز میں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور میرا ساتھی “بس پہ لارہ یم”یعنی راستے میں ہوں کے لارے دیکر مجھے خوار کرتا رہا آخر غصہ آگیا کہ بس آتا ہے تو آجائے ورنہ میں اسی فلائنگ کوچ میں آخر میں چلا جاؤنگا یہی سوچ کر بیٹھ گیا ور اسی دوران میرا وہ ساتھی پہنچ گیا.
اسلام آباد پہنچنے کے بعد تھائی لینڈ کے ویزے لینے اس کے سفارت خانے گئے جہاں پر اتنی رش دیکھی ایسا لگا جیسا پورا پاکستان ویزے کیلئے تھائی لینڈ کے سفارت خانے میں آیا ہو. جس وقت میری باری آئی ایک کالی کلوٹی سی خاتون نے میرے کاغذات دیکھے اور پھر کہہ دیا کہ کاغذات کم ہیں اس وقت اتنے ذہنی تناؤ کا شکار تھا کہ سمجھ نہیں آرہا تھا نئے بال پوائنٹ نے کام کرنا بندکردیا اور ایک دوسرے بندے سے بال پوائنٹ لیکر درخواست لکھ دی- درخواست لینے کے بعد محترمہ نے کہہ دیا کہ چھ ہزار رروپے دو ، اس وقت شکر ادا کیا کہ جیب میں پیسے تھے ورنہ انہوں نے انٹرنیٹ پر ویزہ فیس دو ہزار لکھی تھی خیر پیسے دینے کے بعد میرے ساتھی کی باری آئی تو اس سے محترمہ نے پیسے بھی نہیں لئے ویزے کے .
اس عمل میں حیران وپریشان بھی ہوگیالیکن اس کا جواب میرے ساتھی کے پاس بھی نہیں تھا. اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں اپنی دوست کی جگہ آتا اور میری جگہ میرا دوست آتا اور میرے چھ ہزار بچ جاتے لیکن ..سفارت خانے سے باہر نکلنے لگے تو سیکورٹی گارڈ نے ہاتھ آگے کردیا کہ ” خرچہ پانی دو” سیکورٹی گارڈ چونکہ پاکستانی تھا اس لئے وہ خرچہ پانی کو اپنا حق سمجھ رہا تھا میرے ساتھی نے آگے سے جواب دیا کہ صبر کرو اگلی دفعہ آئینگے ویزہ لگ جائیگا تو خرچہ پانی دیدیں گے. بہت غصہ آیا کہ جاکر تھائی لینڈ کے ویزہ افسر کو کہہ دیا کہ یہ” کیا شوڑہ مار” سیکورٹی گارڈ تعینات کئے ہیں مگر وہ ساتھی کہنے لگاکہ تم پاگل ہو کس کس کے ساتھ لڑو گے . یہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہے . اسی وقت دوست کی بیگم کا فون آیا دوست نے بیگم کو فون پر کہہ دیا کہ میرے دوست سے ویزہ فیس لی ہیں اور مجھ سے نہیں لی . تو اس کی بیگم نے اسے جواب دیا کہ دیکھ لو تمھارے دوست کو کتنا نقصان ہوا ہے . میں نے اس سے پوچھا یہ کیا قصہ ہے تو وہ بولا کہ میں نے کہا ہے کہ مجھے مسرت اللہ جان تھائی لینڈ لیکر جارہا ہے اور میری بیگم کو یہ بات بری لگی ہے کہ مسرت اللہ جان میرے شوہر کو باہر جانے کے خواب دکھا رہا ہے.
چونکہ وہ صاحب بھی آخری حد تک”زن مرید”تھا اس لئے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اس نے میرا نام لے دیا تھا میں نے اس کا جواب سن کر دوست کو بتا دیا کہ بھائی خیال کرنا تمھاری بیگم بھی بقول پشتو مثل کے “سپیرہ بزرگہ”دہ نقصان تمھارا نہیں کیا میرا نقصان کردیا.. خیر اس نے کہہ دیا کہ اب ملائیشیا کیلئے اپلائی کرنا ہے اس لئے کاغذات اور معلومات لینے ملائشیاء کے ٹریول ایجنٹ کے پاس جاتے ہیں. اگلے ہفتے پاسپورٹ آجائیگا تو یہاں پر پاسپورٹ جمع کرینگے اور دونوں جگہ چکر لگالیں گے. وہاں جا کر پتہ چلا کہ پندرہ سو روپے میں ویزہ لگ جائیگا ۔
صبح چائے پینے کے بعد مسلسل سفر ، قطار میں کھڑے ہونے اور پھر مسلسل پانی پینے کی عادت نے اتنا خراب کردیا کہ واش روم میں جانے کیلئے دوڑ لگا دی.اسلام آباد کی سڑکوں پر واش روم اس حالت میں ملنا کہ چھوٹے پیشاب کی وجہ سے پیٹ میں درد ہو ، واش روم ملنا ایسا ہے جیسے کوئی خزانہ ملا ہو، واش روم پر تعینات اہلکار نے اس وقت بیس روپے طلب کئے جو میں نے جاتے ہوئے ادا کئے . واش روم سے فراغت کے بعد یہ خیال آیا کہ یہ تو بڑا ظلم ہے کہ چھوٹے پیشاب کیلئے بھی بندہ بیس روپے لے.یعنی اتنا ظلم.. پھر خیال اس وقت آیا کہ جس وقت درد سے مثانے پھٹ رہے تھے اس وقت اگر کوئی ایک ہزار روپے بھی لے تو ہر کوئی دینے کو تیار ہوتا ہے. خیر مثانے خالی ہوئے تو جیسے آنکھوں میں روشنی آگئی اسی وقت ایک اور صحافی دوست کا فون آیا جب اس سے بڑے رعب میں کہا کہ یہاں پر ویزے کیلئے آیا ہوں تو وہ حیران رہ گیا اس نے کہا کہ میرے لئے بھی کچھ کرنا اور میں نے بڑی لمبی چھوڑتے ہوئے کہا کہ “او بہ شی غم مہ کوہ”یعنی غم مت کرو کرلونگا.یعنی جیسے ویزہ میں دے رہا ہوں حالانکہ مجھے اپنی اوقات کا پتہ تھا.
صحافی دوست کو پاسپورٹ واپس لینے کیلئے کاغذات دئیے اور موٹر وے کے راستے واپسی کا سفر شروع کیا. صوابی تک پہنچا ہی تھا کہ اطلاع آئی کہ گورنر پنجاب کو اس کے سیکورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے قتل کیا.شکر ادا کیا کہ چلو ہم بروقت اسلام آباد سے نکلے تھے اور جہاں پر فائرنگ ہوئی تھی اسی جگہ پر ہم دوستوں کیساتھ کچھ وقت کیلئے آوارہ گردی بھی کررہے تھے.
اگر ایسا واقعہ ہمارے سامنے ہوتا تو پھر تو ہمارا تعلق ویسے بھی خیبر پختونخوا سے تھا اور پنجاب پولیس کو تو پٹھانوں سے ویسے بھی بڑی محبت ہے اگر ان کے ہاتھ لگ جاتا تو پھر وہ ہندی گانا ہوتا یعنی “دغہ دغہ وائی وائی”ہوتا اور ہمارے ہاں تو ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ سچ اتنا لیٹ ہوتا ہے کہ آتے آتے جھوٹ نے بندے کا بیڑہ غرق کیا ہوتا ہے یعنی ” چہ رشتیا رازی نو دروغو کلی روانہ کڑی وی”
سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی تیسری قسط(