تحریر : مسرت اللہ جان
لمبے عرصے سے دل میں ایک خواہش اور آرزو تھی کہ پاکستان سے باہر جاؤ نگا اورڈالر کما کر لے آؤنگا حالات بدلیں گے ہم بھی ذرا مزے کرلیں گے.اور یہی باتیں والدہ کیساتھ ہر وقت کرتا رہتا تھا کہ “بس میں اب گیا” . مجھے وہ زمانہ اب بھی یاد ہے جب میں ایک مقامی اخبار میں سپورٹس رپورٹر کے طور پر کام کرنے لگایہ آج سے تقریبا بائیس سال پرانی بات ہے تو ہر جگہ پر جانے کی کوشش کرتا کیونکہ ان دنوں کھیل کے شعبے سے وابستہ افراد کو باہر جانے کے مواقع بہت ملتے تھے اور ویزہ بھی آسانی سے لگ جاتا تھاکئی ہمارے صحافی دوست ہمارے سامنے نکل کر غائب ہوگئے.اسی وجہ سے ان دنوں سے ایک مشہور صحافی سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی کہ کہیں ہمیں بھی ویزہ لگوا دینگے اور ہم بھی ڈالر کمانے کیلئے باہر چلے جائیں گے . لیکن ان صاحبان کے جو ڈیمانڈ تھے اتنے میری اوقات نہیں تھی اس لئے موصوف ہمیں لفٹ ہی نہی کراتے تھے . اور ہم ایک موہوم سی امید پر ہر وقت پاسپورٹ تیار رکھتے.
پاسپورٹ گھر میں تیار رکھنے کی وجہ سے ہمارے گھر میں اس وقت یہی باتیں ہوتی رہتی کہ مسرت اللہ باہر جارہا ہے گلی محلے میں بھی ہم بڑے شان سے گزرتے ایک تو صحافی اوپر سے باہر جانے کی آرزو اور نئی نئی جوانی .. اس لئے زیادہ تر لوگ یہی باتیں کرتے کہ بس اب یہ بندہ گیا تو گیا اسی وجہ سے ہم بھی دوستوں میں بڑی لمبی لمبی چھوڑتے کہ میاں ہم تو چلے. بس جیسے ہی موقع ملا . یہی باتیں گھر والے بھی سنتے اور ڈرتے رہتے. لیکن ہمیں اپنی اوقات کا پتہ تھا صرف پشتو مثل کے بقول “ڈوزے ویشتلے”. لیکن ہوا یہ کہ سب چلے گئے سوائے میرے . اور ہماری باہر جانے کی خواہش آرزو ہی رہی..بقول شاعر۔۔۔۔یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔
میری منگنی سال 2000 میں ہوئی تھی میری بیگم جو کہ اب ماشاء اللہ پانچ بچوں کی ماں ہیں اور سال 2004 ء سے قبل منگیتر تھی وہ ہماری خیالی پلاو کی باتیں لوگوں سے سنتی کہ اجی سنتی ہو کہ تمھارا منگیتر تو باہر جانے والا ہے بقول ہماری بیگم کہ چونکہ ان دنوں ہم شرمیلے بھی تھے شرمیلے تو اب بھی ہیں لیکن ان دنوں بیگم سے رابطے نہیں تھے اس لئے ان کی خیالات کا ہمیں پتہ شادی کے بعد پتہ چلا . بقول ہماری بیگم کے جب میں یہ سنتی تھی کہ مسرت اللہ باہر جارہا ہے تو میری دل ڈوب جاتا تھا کہ یہ ہوگا کیا.
شادی کے بعد زمہ داریاں اتنی بڑھ گئی کہ پتہ ہی نہیں چلا اور زندگی کی ذمہ داریوں نے وقت سے پہلے ذہنی طور پر بوڑھا بھی کردیا لیکن پھر بھی باہر جانے کی خواہش دل ہی تھی کہ پاسپورٹ کو کسی ویزے سے گندا ہی کردو. آخر ہم بھی صحافی ہیں کسی سے کم نہیں. شادی کے بعد بھی بچوں کی اماں یعنی بیگم کو یہ کہہ دیتا کہ اب بھی باہر جاؤ نگا تو وہ ہنس کے کہہ دیتی . میں کب سے یہ باتیں سن رہی ہوں اب باہر جا کر کیا کرو گے .گوری کے چکر میں جارہے ہو تو جب میں جواب دیتا کہ ہاں تو بیگم بڑے غصے سے جواب دیتی کہ تم بڑے ہیرو ہو اور انگریز گوریاں تمھارے انتظار میں جیسے انتظار میں ہیں کہ یہ صاحب پاکستان سے ہمارے لئے آئینگے اور ہم ان کے ساتھ شادی کرینگے . اسی بات پر بیگم کے سامنے تلملا جاتا. بس منہ پھلا کر باہر نکل پڑتا کہ جھگڑا نہ ہو جائے. لیکن دل میں یہی ارمان تھا کہ باہر جانا ہی ہے کیونکہ اب تو یہ میری غیرت اور انا کا بھی مسئلہ ہے.اور پھر میں تین تین دن بیگم سے بات بھی نہیں کرتا کیونکہ بیگم مجھے میری اوقات بتا دیتی تھی جو کہ ہمیں قبول بھی نہیں تھا کیونکہ ایک تو “پختون”خون جس میں اور کچھ ہے کہ نہیں لیکن انا ، غیرت اور جوش زیادہ ہے بس یہی جوش ہمیں ہر جگہ پر خراب کرتا. خیر باتیں کہیں اور نکل گئی..
صحافت کے شعبے میں آغاز سے یہی وطیرہ رہا کہ کبھی کسی سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا نہ ہی فطرت یہ اجازت دیتی یہ الگ بات کہ صحافی اس معاملے میں بدنام ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس معاملے میں بھی اللہ نے عزت رکھی ہوئی ہیں-
بیرون ملک جانے کیلئے بینک اکاؤنٹ میں رقم رکھنا ضروری ہے اور اسی لئے ہم نے اپنی چھوٹی سی تنخواہ میں لمبے عرصے تک رقم بھی رکھی یہ الگ بات کہ یہ رقم جو کسی زمانے میں اسی ہزار تک پہنچ گئی تھی اب تو یہ حال ہے کہ ادھر تنخواہ آئی اور ادھر ہی ختم . خیر یہ رقم بھی کسی طرح کام نہ آئی .شادی کے بعد بھی بہت کوشش کی کہ کہیں پر قسطیں ڈال کر اپنے لئے لاکھوں روپے جمع کرو لیکن پشتو مثل کے بقول ” مزہ ئے او نکڑہ” …
صحافت کے شعبے سے وابستگی کے دوران ہی ایک ادارے میں ایک امریکی خاتون سے دوستی ہوئی روزانہ چیٹنگ ہوتی تھی لیکن پھر میں سست پڑ گیااور ہمارے ایک اور دوست جو اب امریکہ میں ہے اسی کے ساتھ لائن سیٹنگ ہوگئی اور خاتون اس کے پیچھے آگئی اور دونوں نے شادی کرلی اور موصوف کو اپنے ساتھ لے گئی . اس کے بعد اپنی ایسی قسمت رہی کہ امریکہ اور برطانیہ کی گوری تو چھوڑ دیں افریقہ کی کسی کالی نے بھی لفٹ نہیں کروائی. جو کہ آج تک نہ سمجھنے والا ایک المیہ بھی ہے. لیکن خیر شادی کے بعد تو ایسی صورتحال بن گئی کہ ہم وقت کو دھکا دیتے ہیں اور وقت ہمیں بھگاتا ہے .انٹرنیٹ پر بہت سارے لوگوں سے رابطے بن گئے لیکن بیرون ملک جانے کی خواہش خواہش ہی رہی .
ایک پشتو مثل مشہور ہے کہ “دا میخے یار سنڈا وی” یعنی جن لوگوں سے ہماری دوستی بنی وہ بھی ہماری طرح ککھ پتی تھے صرف باتیں کرتے اور کسی نے غلطی سے بھی یہ نہیں کہا کہ آجاؤ یار ہم تمھیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں . ہماری ایک خاتون صحافی دوست جو کسی زمانے میں صحافیوں کے ایک تربیتی سیشن میں باہر جارہی تھی جب وہ باہر جارہی تھی اس وقت میں نے اسے کہہ دیا کہ باہر تو جارہی ہو لیکن واپس مت آنا اور وہاں پر کسی گورے سے شادی کرنا . اگر یہ نہیں کرسکتی تو میرے لئے کسی گوری کو لیکر آنا. یعنی وہ بھی ایسی بدقسمت کہ نہ اپنے لئے گورا دیکھا اور نہ ہمارے لئے گوری دیکھی اور ہماری یہ خواہش باہر جانے کی خواہش ہی رہی..
سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی پہلی قسط
Load/Hide Comments