خواجہ آصف اور ملا یعقوب کے مابین سخت کشیدگی کے بعد جنگ بندی تو ہو گئی، لیکن افغانستان کی جانب سے ‘سرحد’ کے لفظ پر اعتراض نے بنیادی تنازعے کو ایک نئی سفارتی جہت دے دی ہے۔
اکتوبر 2025 کے اوائل میں پاک افغان سرحد پر ہونے والی شدید جھڑپوں نے ایک علاقائی بحران کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں دوحہ میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کا انعقاد ہوا ۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کر رہے تھے، جبکہ افغان عبوری حکومت کی جانب سے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب مجاہد نے وفد کی سربراہی کی ۔ مذاکرات کا ہدف فوری جنگ بندی اور پاکستان میں سرگرم تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروہوں کی سرحد پار کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک ٹھوس میکنزم وضع کرنا تھا ۔
تاہم، جہاں فریقین نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ، وہیں افغان وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کے ایک بیان نے امن عمل کو ایک نئی سفارتی کشمکش سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ دوحہ معاہدے کے متن سے “پاک افغان سرحد” کی اصطلاح کو حذف کیا جائے، کیونکہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو ایک رسمی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا ۔ انہوں نے ایک افغان نیوز چینل کو بتایا ہے، کہ ڈیورنڈ لائن ان کیلئے ایک فرضی لکھیر کی حیثیت رکھتے ہیں، نہ کہ پاک افغان سرحد۔
دوحہ سے ایک آن لائن پریس کانفرنس کے دوران، ملا محمد یعقوب مجاہد نے صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ ڈیورنڈ لائن ایک “فرضی لائن ہے، اور اس پر دوحہ مذاکرات کے کسی بھی حصے میں کوئی بات نہیں ہوئی ۔
ان کا یہ موقف تمام افغان حکومتوں کے تاریخی انکار کو دہراتا ہے کہ 1893ء میں برطانوی ہند اور امیر عبدالرحمٰن کے درمیان طے پانے والی یہ حد بندی ایک نوآبادیاتی جبر کا نتیجہ ہے جس نے پشتون قبائل کو من مانے طریقے سے تقسیم کیا ۔
ملا یعقوب نے کہا کہ یہ معاملہ کسی بھی حکومت کا نہیں بلکہ “قوموں کے درمیان کا معاملہ ہے” ، جس کا مطلب ہے کہ موجودہ طالبان انتظامیہ کو اس متنازعہ لکیر کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے کا کوئی قومی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے ۔
افغان وزیر دفاع کے اس سخت گیر قومی موقف کے باعث ایک فوری سفارتی ردوبدل دیکھنے میں آیاہے، ابتدائی اعلامیہ کے مطابق جنگ بندی کے بعد، قطر کی وزارت خارجہ (MoFA) نے اپنے ابتدائی بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ معاہدہ “دونوں برادر ممالک کی سرحد پر” تناؤ ختم کرنے میں معاون ہوگا، افغان حکام نے فوری طور پر اس اعلامیے کے متن پر سخت اعتراض کیا، کیونکہ انہوں نے “سرحد” کی اصطلاح کو ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت کے بالواسطہ اعتراف سے تعبیر کیا ۔
افغان دباؤ کے بعد، قطر نے اپنا سرکاری بیان تبدیل کر دیا ۔ ترمیم شدہ متن میں “دونوں برادر ممالک کی سرحد پر تناؤ ختم کرنے” کے بجائے صرف “دونوں برادر ممالک کے درمیان تناؤ ختم کرنے” کی امید ظاہر کی گئی ۔
قطر کی جانب سے اس لسانی تبدیلی کو طالبان انتظامیہ نے ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دیا، جس نے عالمی سطح پر بھی ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت سے متعلق افغان موقف کو تقویت بخشی ۔
ڈیورنڈ لائن کو فرضی قرار دینے کا ملا یعقوب کا فیصلہ، پاکستان کی داخلی سلامتی پر گہرے اور پیچیدہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ دوحہ معاہدے میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کی “خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام” کرنے کا عہد کیا ۔ تاہم، اگر کابل ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتا تو پاکستان کی جانب سے سرحد پار کی جانے والی کوئی بھی یکطرفہ کارروائی، خواہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہو یا سرحد پر باڑ بندی کی کوشش ، فوری طور پر افغان خودمختاری کی خلاف ورزی بن جاتی ہے ۔
ملا یعقوب کا موقف کالعدم ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ جیسے دیگر عسکریت پسندوں کو نظریاتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی بین الاقوامی سرحد تسلیم شدہ نہیں، تو یہ گروہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ کسی غیر ملکی ریاست میں ‘سرحد پار دہشتگردی’ نہیں کر رہے، بلکہ محض اپنے روایتی پشتون علاقوں میں نقل و حرکت کر رہے ہیں ۔
پاکستان نے دوحہ مذاکرات میں ٹی ٹی پی سمیت تمام دشمن عناصر کے خلاف “فوری خاتمہ” کا مطالبہ کیا تھا، اور اس معاملے کو “یک نکاتی ایجنڈے” کے طور پر اٹھایا تھا ۔ تاہم، ملا یعقوب نے قومی بیانیے کو برقرار رکھ کر، پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف طویل مدتی سیکیورٹی انتظامات کو قانونی طور پر مشکل بنا دیا ہے ۔
دوحہ میں ہونے والا سیز فائر ایک عارضی جنگ بندی ہے، جس کا مقصد اکتوبر 25 کو استنبول میں ہونے والی اگلی ملاقاتوں تک کشیدگی کو کم کرنا ہے ۔ دونوں ممالک نے پائیدار امن کے لیے مشترکہ تکنیکی میکنزم کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے ۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس معاہدے کو ‘صحیح سمت میں پہلا قدم’ قرار دیتے ہوئے، استنبول ملاقات کے لیے “ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی میکنزم” کے قیام پر زور دیا ہے ۔
ماہرین کے مطابق، جب تک افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا، دوطرفہ سیکیورٹی کے معاملات ہمیشہ اسی طرح کے تزویراتی تضاد کا شکار رہیں گے۔ لہٰذا، طویل المدتی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ رسمی سرحدی تسلیم کے مطالبے سے ہٹ کر، صرف عملی سرحد پار نقل و حرکت کنٹرول اور دہشتگردوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے قابل عمل، قابل تصدیق تکنیکی میکنزم پر توجہ مرکوز کی جائے، قطع نظر اس کے کہ کابل اس لکیر کو کیا نام دیتا ہے ۔