درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی کمی: مستقبل کا بڑھتا ہوا بحران .تحریر: مہوش تسلیم


پاکستان میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت محض موسمی تغیر نہیں بلکہ ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر گرمی میں اضافہ، برفانی تودوں کے پگھلنے، اور غیر متوازن بارشوں نے ملک میں پانی کی دستیابی کو شدید متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں پانی کی کمی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے اور یہاں روز بروز سطحِ آب نیچے جا رہی ہے۔
جنوبی اضلاع (ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، لکی مروت، بنوں و دیگر قبائلی علاقوں) میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق، پچھلے پانچ سال میں یہاں زیرِ زمین پانی کی سطح میں اوسطاً آٹھ سے دس فٹ کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم مقامی آبادی اس سے بھی زیادہ کمی بتا رہی ہے۔
شمالی اضلاع میں برف پگھلنے سے دریائی نظام چل رہا ہے، لیکن گرمی یہاں بھی بڑھ رہی ہے اور شدید گرمی میں برف پگھلنے کے طوفانی اثرات نظر آ رہے ہیں۔
کلائمٹ چینج کے اثرات براہ راست گرمی میں اضافے، برف کے تیزی سے پگھلنے اور بارش کے غیر متوازن نظام کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (PMD) کے مطابق، گزشتہ دہائی میں صوبے کا اوسط درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہے۔ اسی عرصے میں زیرِ زمین پانی کی سطح میں 15 تا 20 فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے، جو زراعت و صنعت اور پینے کے پانی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
پی ڈی ایم اے اور محکمہ آبپاشی نے واٹر ریچارج منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ بارش کا پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں پائلٹ پروجیکٹس کے طور پر واٹر ریچارج پوائنٹس بنائے گئے ہیں، جو پانی کو زیرِ زمین جمع کر کے ٹیوب ویل پر دباؤ کم کریں گے۔
گزشتہ دو سال میں کم بارشوں سے زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنوبی اضلاع میں گندم، مکئی اور سبزیوں کی پیداوار میں 20 سے 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور پرائیویٹ ٹینکر مافیا سرگرم ہو چکی ہے، جو پانی کو عام افراد کی دسترس سے دور لے جا رہی ہے۔
زمینداروں کے مطابق، پہلے جو پانی 100 فٹ پر تھا، اب 200 فٹ سے بھی نیچے جا چکا ہے۔
شہری مراکز (پشاور، مردان) میں لیک ہونے والی لائنیں اور غیر ضروری استعمال پانی کے ضیاع کا بڑا سبب ہیں۔ واسا کے مطابق، روزانہ 30 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اب پریشر ریگولیٹرز، لیکیج ڈیٹیکشن اور جرمانے کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔
سروس اسٹیشنز پر پانی کے ضیاع کے حوالے سے بھی قانون سازی کی گئی ہے، تاہم اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
پی ڈی ایم اے نے “پانی بچاؤ، زندگی بچاؤ” مہم شروع کی ہے، جس میں نوجوانوں کو پانی کے مؤثر استعمال کی تربیت دی جا رہی ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں: اگر اجتماعی سطح پر موثر اقدامات نہ کیے گئے تو اگلی دہائی میں پانی کی دستیابی 40 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ صرف موسمی مسئلہ نہیں بلکہ زندگی اور بقاء کا سوال ہے۔
اگر حکومت، عوام اور ادارے مل کر پانی کے اصولی استعمال، ذخیرہ اندوزی اور ماحولیاتی تحفظ پر توجہ نہ دیں تو آنے والی نسلوں کے لیے بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔
پانی بچانا صرف ذمہ داری نہیں، انسانوں کی بقاء کی ضمانت بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں