شمالی وزیرستان میں ہر ہفتے کے دو دن، ہفتہ اور اتوار کو کرفیو نافذ رہتا ہے۔ یہ کرفیو بظاہر سیکیورٹی خدشات کے باعث لگایا جاتا ہے، مگر اس کے اثرات عام شہریوں پر نہایت گہرے ہیں۔ خواتین اور بچے گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں، دکاندار کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور مقامی معیشت کو صرف دو دنوں میں کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
۲۰۱۴ء میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن “ضربِ عضب” ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا آپریشن قرار دیا جاتا ہے۔ سرکاری بیانات کے مطابق اس پر کھربوں روپے کے اخراجات آئے، ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے، بازار تباہ ہوئے، دیہات اجڑ گئے اور مساجد تک مسمار ہوئیں۔ لیکن عوامی حلقے آج بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اتنی بھاری قربانی کے باوجود امن کیوں قائم نہ ہو سکا؟
سیکیورٹی فورسز کا رویہ اور عوامی اعتماد کا فقدان
مقامی شہریوں کا سب سے بڑا گلہ سیکیورٹی اداروں کے رویے سے ہے۔ چیک پوسٹوں پر سختی، نقل و حرکت پر پابندیاں اور غیر شفاف پالیسیوں نے عوام میں ریاستی اداروں پر اعتماد کو کمزور کیا ہے۔ متعدد شہریوں کا کہنا ہے کہ “ہم نے سب کچھ قربان کیا، مگر بدلے میں سکون اور تحفظ نہیں پایا۔”
ریاستی اداروں کی موجودگی کے باوجود ان کی عملی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سکول، ہسپتال اور بازار یا تو تباہ حال ہیں یا غیر فعال۔ سڑکوں اور پلوں کا انفراسٹرکچر بھی غیر محفوظ ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف روزگار کے مواقع محدود کر دیے ہیں بلکہ عام شہریوں کو بنیادی سہولیات تک رسائی بھی مشکل بنا دی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، جنہوں نے عوامی خوف میں اضافہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق شمالی وزیرستان میں اب بھی کوئی شخص اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ نہیں سمجھتا۔ یہی غیر یقینی صورتحال عوامی نفسیات پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور ماہرینِ امن کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے دیرپا مسائل صرف عسکری اقدامات سے حل نہیں ہو سکتے۔ ان کے مطابق:
* عوامی اعتماد کی بحالی: ریاست کو چاہیے کہ مقامی آبادی کو فیصلہ سازی میں شامل کرے، ان کے خدشات سننے اور حل کرنے کے لیے پلیٹ فارم قائم کرے۔
* معاشی بحالی: تباہ شدہ بازاروں اور دیہات کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ عوام کی معاشی مشکلات کم ہوں۔
* انفراسٹرکچر کی ترقی: سکول، ہسپتال، سڑکیں اور دیگر سہولیات بحال کیے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔
* سیکیورٹی فورسز کا رویہ: فورسز کو عوام دوست حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ خود کو ریاست کا حصہ سمجھیں نہ کہ اس سے الگ۔
* ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ: اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا لازمی ہے۔
شمالی وزیرستان کے عوام ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے قربانیاں دے رہے ہیں۔ لیکن آج بھی وہ حقیقی امن اور سکون سے محروم ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ریاست عوامی اعتماد کو بحال کرنے، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو بہتر بنانے، اور سیکیورٹی پالیسی کو عوام دوست بنانے میں کامیاب نہ ہوئی، تو یہ خطہ مزید عرصے تک عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار رہے گا۔