خیبر پختونخوا میں حکومتی پالیسیوں پر سوالیہ نشان

قرضوں کے بوجھ سے لے کر ہسپتالوں کی نجکاری تک

خیبرپختونخوا (کے پی) کی موجودہ حکومت ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبے کی معاشی اور انتظامی پالیسیوں نے عوام کو مسائل کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔
قرضوں کا بوجھ اور صوبے کا مستقبل
اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے 800 ارب روپے کا قرض لے کر خیبرپختونخوا کو ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ یہ فیصلہ مستقبل میں صوبے کی خودمختاری اور مالیاتی پالیسیوں پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مسلسل قرضوں پر انحصار نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کرے گا بلکہ صوبے کو مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا۔

مزید برآں صوبائی حکومت نے 24 سرکاری ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیے اشتہارات جاری کر دیے ہیں۔ اس فیصلے پر عوامی اور سیاسی حلقوں نے شدید ردعمل دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر صحت جیسے حساس شعبے کو بھی نجی کنٹرول میں دے دیا گیا تو عام آدمی علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہو جائے گا۔

خیبرپختونخوا حکومت کے بارے میں پہلے ہی بدعنوانی کے کئی الزامات سامنے آچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق متعدد کابینہ اراکین، وزراء اور مشیروں پر ٹھیکیداروں سے کمیشن لینے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی بڑے منصوبے جیسے بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور صحت کارڈ کرپشن اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے زیرِ بحث رہے ہیں۔

حکومت کی اندرونی صفوں میں بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ سابق صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جیل سے انہیں صوبائی کابینہ میں بطور مشیر نامزد کیا تھا۔ تاہم وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے مبینہ طور پر ان سے 20 کروڑ روپے پارٹی فنڈ میں جمع کرنے کے نام پر رشوت کا تقاضا کیا۔ تیمور جھگڑا کے انکار پر انہیں عہدہ نہیں دیا گیا۔ یہ الزام نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

کیا واقعی “نئے پختونخوا” میں تباہی آچکی ہے؟
خیبرپختونخوا کی سیاست ہمیشہ سے مالیاتی بحران اور انتظامی مسائل کے گرد گھومتی رہی ہے، مگر موجودہ صورتحال زیادہ سنگین دکھائی دے رہی ہے۔
1. قرضوں کا جال: صوبے کو ترقیاتی فنڈز کے بجائے قرضوں پر چلانا آنے والے برسوں میں صوبائی معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ صوبے کی آمدنی کے ذرائع محدود ہیں اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ وسائل موجود نہیں۔
2. نجکاری کے اثرات: صحت کے شعبے کو نجی ہاتھوں میں دینا عام آدمی کے لیے مہنگائی اور مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ غریب اور متوسط طبقہ سرکاری سہولیات پر انحصار کرتا ہے، جبکہ نجی ادارے منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔
3. کرپشن اور بداعتمادی: بڑے منصوبوں پر کرپشن کے الزامات نے پہلے ہی عوامی اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ اگر کابینہ کے وزراء پر بھی یہی الزامات ثابت ہوتے ہیں تو حکومتی ساکھ مزید گر سکتی ہے۔
4. تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش اور رشوت کے الزامات نے ظاہر کر دیا ہے کہ حکومت اندرونی طور پر بھی غیر مستحکم ہے۔ یہ صورتحال صوبائی فیصلوں پر براہ راست اثر ڈال رہی ہے۔

اگر موجودہ حکومت نے شفافیت، مالیاتی نظم و ضبط اور عوامی فلاح کو اولین ترجیح نہ دی تو “نئے پختونخوا” کا خواب محض ایک سیاسی نعرہ رہ جائے گا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں عوامی اعتماد بحال کرنا اور اصلاحات متعارف کرانا ناگزیر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں