شہادت، سوالات اور پشتونوں کا بہتا خون: ریاستی بے حسی کا المیہ

 دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ

باجوڑ میں پشتون قوم کے دل پر ایک اور گہرا ز خم:

عوامی نیشنل پارٹی کے سرگرم رہنما **مولانا خانزیب** کی نماز جنازہ میں پارٹی صدر خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین اور ہزاروں سوگوار افراد کی شرکت نے اس المیے کے پیمانے کو واضح کر دیا۔ آنسوؤں، دعاؤں اور سناٹے کے بیچ ادا ہونے والی یہ نماز جنازہ محض ایک فرد کو الوداع کہنے کا موقع نہیں تھا، بلکہ پورے خطے میں بڑھتی ہوئی انسانی المناکی اور ریاستی ناکامی کے خلاف ایک خاموش احتجاج تھا۔ مولانا خانزیب کی شہادت ایک ایسے نازک موڑ پر ہوئی ہے جب پشتون علاقوں میں بدامنی کا طوفان روز بروز وحشت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ایک شہادت، لاکھوں سوالات:
مولانا خانزیب صرف ایک پارٹی رہنما نہیں تھے؛ وہ اپنی برادری، اپنے خطے کے مسائل اور امن کی خواہش رکھنے والوں کی آواز تھے۔ ان کی زندگی کا خاتمہ صرف ایک جان کا زیاں نہیں، بلکہ پشتون سماج کے اعتماد اور ریاست سے بچھڑتے رشتوں کی ایک اور کڑی ہے۔ یہ شہادت اس تلخ حقیقت کو دہرا رہی ہے: **”امن کا نام لینے والا ہر شہری ٹارگٹ بن رہا ہے۔”**

پشتون خطہ: بدامنی کا بھٹ اور ریاستی خاموشی کا المیہ:
مولانا خانزیب کی شہادت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں۔ یہ ایک وسیع تر اور انتہائی تشویشناک پیٹرن کا حصہ ہے:

1.  پشتونوں کا بہتا لہو: پشتون علاقوں سے روزانہ ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور دہشت گردی کی خبریں آتی ہیں۔ عام شہری، سیاسی کارکن، دانشور، اور قبائلی رہنما – کوئی محفوظ نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خوف اور عدم تحفظ کی فضا گہری ہوتی جا رہی ہے۔
2.  وسائل کی لوٹ اور حقوق کی پامالی: پشتونوں کے دلوں میں یہ گہرا یقین پنپ رہا ہے کہ ان کی سرزمین کے وسائل (قدرتی، معدنی، جغرافیائی) تو استعمال ہو رہے ہیں، لیکن ان کے بنیادی انسانی حقوق – تحفظ، انصاف، ترقی، خود مختاری – کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ احساسِ محرومی غم و غصے میں بدل رہا ہے۔
3.  ریاستی تنصیبات اور فوجی اہلکار بھی نشانہ: یہ سچ ہے کہ سرکاری تنصیبات اور پاک فوج کے جوان بھی دہشت گردوں کے حملوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ پورے نظامِ امن و قانون کے لیے ایک چیلنج ہے۔ لیکن پشتون عوام کا سوال یہ ہے کہ جب ان کا اپنا خون بہ رہا ہو، ان کے گھر اجڑ رہے ہوں، تو ان کی آواز کیوں نہیں سنی جا رہی؟
4.  گلے شکوے اور بڑھتی ہوئی خلیج: ہزاروں کی تعداد میں مولانا خانزیب کے جنازے میں شریک ہونے والے افراد صرف تعزیت ہی نہیں کر رہے تھے؛ وہ ایک پیغام دے رہے تھے۔ پشتون عوام ریاست اور فوجی اداروں سے براہِ راست “گلے شکوے” کر رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں: **”ہماری حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ہمارے قاتلوں کو کیوں تحفظ حاصل ہے؟ ہماری آواز سنی کیوں نہیں جا رہی؟”** یہ شکوے نہ صرف جائز ہیں، بلکہ ان پر فوری توجہ نہ دی گئی تو قومی یکجہتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

سنگین حالات، سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ:
حالات ناقابلِ برداشت حد تک سنگین ہو چکے ہیں۔ بدامنی صرف پھیل نہیں رہی؛ اس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ ایسے میں:

ریاستی سنجیدگی ناگزیر ہے: محض بیانات یا سطحی کارروائیوں سے کام نہیں چلے گا۔ بدامنی کے جڑوں تک پہنچنے، دہشت گرد نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنے اور انہیں مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جامع، شفاف اور مستقل حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔
پشتونوں کے تحفظ کو اولین ترجیح: پشتون عوام کو یقین دلایا جانا چاہیے کہ ان کی جان و مال اور عزتِ نفس محفوظ ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے تمام واقعات کی غیر جانبدارانہ اور فوری تحقیقات ہونی چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
آوازوں کو سنیں، خلیج کو پاٹیں:  پشتون قیادت، دانشوروں، اور خاص طور پر متاثرہ خاندانوں اور برادریوں سے براہِ راست مکالمہ انتہائی ضروری ہے۔ ان کے خدشات، سوالات اور تجاویز کو سنجیدگی سے سنا جائے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کا اعلان کیا جائے۔
امن کی علمبردار شخصیات کا تحفظ جو لوگ قبائلی تنازعات کے حل، تعلیم، صحت اور امن کی بات کرتے ہیں، انہیں ریاست کی طرف سے موثر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ ان کی شہادت پورے خطے میں امن کی امیدوں کو دم توڑ دیتی ہے۔

وقت ہے فیصلہ کرنے کا
مولانا خانزیب کا خون پشتون عوام کے دیگر لاکھوں ساتھیوں کے خون سے مل گیا ہے جو بدامنی، دہشت گردی اور ریاستی بے حسی کی نذر ہو چکے ہیں۔ ہر نئی شہادت صرف المیہ ہی نہیں لاتی؛ وہ پشتونوں اور ریاست کے درمیان موجود خلیج کو اور وسیع کر دیتی ہے۔ باجوڑ میں آنسو بہانے والے ہزاروں چہرے صرف غمزدہ نہیں ہیں؛ وہ سوال کر رہے ہیں، مطالبہ کر رہے ہیں، اور انصاف کی منتظر نگاہیں رکھتے ہیں۔

یہ وقت تقاریر، وعدوں یا الزام تراشیوں کا نہیں۔ یہ وقت عملی، شفاف اور مؤثر کارروائی کا ہے۔ پشتون خطے میں امن صرف پشتون عوام ہی نہیں، پورے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ریاست کو اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے، پشتون عوام کے جائز سوالات کا جواب دینے اور ان کے بنیادی حقِ تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ، بہتے ہوئے خون اور بڑھتے ہوئے سوالات کے سائے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ پشتونوں کا صبر اور اعتبار دونوں انتہائی دباؤ میں ہیں۔ اب وقت عمل کا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں