امیر مقام جیسے غیر منتخب اور متنازعہ افراد ضم اضلاع جیسے حساس علاقوں کے فیصلے کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟
پشاور: ( دی خیبرٹائمز مانیٹرنگ ڈیسک ) خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) سے متعلق قائم کردہ کمیٹی پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبائلی عوام کے مینڈیٹ کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کمیٹی کے قیام پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ:
“ضم اضلاع خیبر پختونخوا کا آئینی حصہ ہیں، کسی بھی فیصلے میں صوبائی حکومت کو نظرانداز کرنا ناقابلِ قبول ہے۔”
انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا بھی اجلاس میں شریک تھے، اور کمیٹی کو باقاعدہ طور پر وزیراعلیٰ کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔
فیصلے کہیں اور، اثرات یہاں؟” — بیرسٹر سیف کا دوٹوک مؤقف
بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ:
“امیر مقام جیسے غیر منتخب اور متنازعہ افراد ضم اضلاع جیسے حساس علاقوں کے فیصلے کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ وہ تو خود فارم 47 کے مرہونِ منت ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ:
کمیٹی کی تشکیل خیبر پختونخوا کی مشاورت کے بغیر کی گئی۔
ضم اضلاع میں کسی بھی قسم کی پالیسی سازی صوبائی حکومت کی مشاورت کے بغیر ناقابلِ قبول ہوگی۔
کمیٹی کے ارکان کی تقرری کیسے اور کن بنیادوں پر ہوئی؟ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
تاریخی پس منظر: فاٹا، ایف سی آر اور قبائلی عوام کی قربانیاں
سابقہ فاٹا کے عوام نے دہائیوں تک “فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن” (FCR) جیسے کالے قانون اور کرپٹ مافیائی نظام کا سامنا کیا۔
نہ اپیل، نہ وکیل، نہ دلیل — صرف جرگہ، سیاسی ایجنٹ، اور غیر شفاف فیصلے۔
2018 میں فاٹا انضمام نے امید دلائی کہ شاید اب قانون کی حکمرانی، ترقی اور انسانی حقوق کا بول بالا ہوگا۔ مگر آج بھی ضم اضلاع اندھیروں کے دور سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکے۔
کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
سینیر صحافی اور تجزیہ کار سید فخرکاکا خیل کہتے ہیں، کہ وفاقی سطح پر کیے گئے حالیہ اقدامات ایک بار پھر قبائلی عوام کو ان کے حقِ نمائندگی سے محروم کرنے کی کوشش دکھائی دیتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں درپیش چیلنجز کا حل مرکز میں بیٹھے چند افراد کے فیصلوں میں نہیں بلکہ وہاں کے مقامی عوام، نمائندوں، اور خیبر پختونخوا حکومت کی مشاورت سے نکلے گا۔
ضم شدہ اضلاع کا مستقبل، ان کے عوام کی مرضی اور ضرورتوں کے مطابق طے ہونا چاہیے، نہ کہ سیاسی مصلحتوں یا طاقت کے زور پر۔
قبائلی عوام کو مشاورتی عمل کا مرکز بنایا جائے، تاکہ فاٹا انضمام ایک “تاریخی موقع” کے بجائے “تاریخی دھوکہ” نہ بن جائے۔