سیاست کے شہنشاہ: باچا خان بابا سے ایمل ولی خان تک، پشتون قیادت کی نظریاتی روایت
تحریر: دی خیبر ٹائمز ادارتی ٹیم
تاریخِ اشاعت: اپریل 2025
—
مقدمہ
پشتون سیاست میں اگر کسی خاندان کا نام تسلسل، مزاحمت، شعور اور نظریاتی وابستگی کی علامت سمجھا جاتا ہے تو وہ خاندان ہے خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کا۔ ان کی سیاسی اور فکری وراثت نے پاکستان اور برصغیر میں ایک منفرد راستہ متعین کیا — جو عدم تشدد، تعلیم، امن، قومی خودمختاری اور جمہوریت کا راستہ ہے۔ اس عظیم روایت کو بعد ازاں خان عبدالولی خان، اسفندیار ولی خان اور آج ایمل ولی خان نے کامیابی سے آگے بڑھایا۔
اس خاندان کو “سیاست کا شہنشاہ” محض اس لیے نہیں کہا جاتا کہ ان کی کئی نسلیں سیاست میں سرگرم ہیں، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سیاست کو خدمت، نظریے، مزاحمت اور قوم پرستی کا ذریعہ بنایا۔
—
باچا خان بابا — عدم تشدد کا پیامبر
خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا، پشتون ملت کے وہ رہنما تھے جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف خدائی خدمتگار تحریک کے ذریعے نہتے پشتونوں کو عدم تشدد کے راستے پر ڈالا۔ انہوں نے تعلیم کو اصل آزادی قرار دیا، اور دیہات میں اسکول قائم کیے۔ وہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں بھی نمایاں کردار کے حامل تھے اور گاندھی جی کے قریبی ساتھی کہلائے۔
باچا خان نے جو سیاسی بیج بویا، وہ آنے والی نسلوں میں تناور درخت بن کر ابھرا۔
—
خان عبدالولی خان — جمہوریت اور آئینی جدوجہد کا محافظ
باچا خان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان، پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے آمریت کے خلاف مسلسل آواز بلند کی۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف مزاحمت ہو یا ضیاء الحق کے دور کی ریاستی جبر کی مخالفت، ولی خان ہر محاذ پر ثابت قدم رہے۔
انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کو نظریاتی، وفاق پرست اور پشتون قوم پرست جماعت کے طور پر مستحکم کیا۔ ان کا یہ قول آج بھی معروف ہے: “ہم پاکستان کے آئین کے ساتھ ہیں، مگر طاقت کے بل بوتے پر مسلط نظام کے ساتھ نہیں۔”
—
نسیم ولی خان — پشتون خواتین کی رہنمائی کا استعارہ
ولی خان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان، پشتون خواتین میں سیاسی بیداری کی علامت بن کر ابھریں۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کی پہلی خاتون صدر بھی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف ولی خان کے نظریے کو آگے بڑھایا بلکہ خود عملی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا، جو ایک پدرانہ (patriarchal) سماج میں بے حد اہم پیش رفت تھی۔
—
اسفندیار ولی خان — جمہوری تسلسل اور انتظامی قیادت
ولی خان کے صاحبزادے اسفندیار ولی خان نے ANP کی قیادت سنبھالی اور 2008 میں جماعت کو اقتدار تک پہنچایا۔ ان کے دور میں خیبر پختونخوا کو باقاعدہ نام ملا، اور صوبے میں کئی اصلاحات کی گئیں۔
ان کی قیادت میں ANP نے شدت پسندی کے خلاف واضح مؤقف اختیار کیا، جس کی انہیں بڑی قیمت چکانی پڑی — جماعت کے کئی کارکن، رہنما اور دفاتر دہشتگردی کا نشانہ بنے۔
—
ایمل ولی خان — نئی نسل کی آواز
آج ایمل ولی خان، اسفندیار کے فرزند اور باچا خان بابا کے پڑپوتے، ANP کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ نئی نسل کو قوم پرستی، سیاسی شعور، اور جمہوریت کے نظریے سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا، نوجوانوں کی سیاسی تربیت، اور پشتون حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے کی کوششوں کو منظم کیا ہے۔
“سیاست کا شہنشاہ” — اس لقب کا مفہوم
خان عبدالغفار خان کے خانوادے کو “سیاست کا شہنشاہ” کہنے کی کئی وجوہات ہیں:
1. نسل در نسل قیادت: سیاست میں ایک صدی سے زائد تسلسل؛ ہر نسل نے کردار ادا کیا۔
2. نظریاتی وابستگی: صرف اقتدار نہیں، بلکہ نظریے، شعور اور جدوجہد کی سیاست۔
3. مزاحمت کی علامت: آمریت، مذہبی انتہاپسندی اور سامراجیت کے خلاف کھلی مزاحمت۔
4. علم و شعور کی روشنی: تعلیم، سیاسی بیداری، اور عدم تشدد کا پیغام۔
5. عوامی مقبولیت: خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پشتون بیلٹ میں گہری جڑیں۔
باچا خان بابا سے لے کر ایمل ولی خان تک کا سفر صرف ایک خاندان کی سیاسی کہانی نہیں، بلکہ پشتون تاریخ، تشخص اور مزاحمت کی مکمل داستان ہے۔ یہ خاندان آج بھی ان نظریات کا علمبردار ہے جو نہ صرف پشتونوں کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے امن، انصاف اور ترقی کا راستہ دکھاتے ہیں۔
ماخذ نوٹ (Source Note):
یہ مضمون دی خیبر ٹائمز کی تحقیقی ٹیم نے تاریخی حوالوں، خود نوشت سوانح عمریوں، ANP کے بیانات، اور معتبر میڈیا رپورٹس (جیسے Dawn, BBC, Radio Mashaal) کی روشنی میں تیار کیا ہے۔ مضمون میں شامل تجزیہ، زبان اور ترتیب ادارے کی ملکیت ہے۔