پشتو زبان کے شہنشاہ تصوف عبدالرحمان بابا رحمتہ اللہ علیہ خانقاہی اور فلسفیانہ تصوف دونوں سے بخوبی واقف تھے۔ تحریر: کاشف عزیز

پشاور کے نواحی گاؤں دیہہ بہادر میں غوری خیل مومند کے ابراہیم خیل قبیلے میں آنکھ کھولنے والے عبدالرحمان معروف بہ رحمان بابا, عبدالستار کے گھر میں پیدا ہوئے اور اسی علاقے میں پلے بڑھے….
رحمان بابا کا شمار علاقے کے متمول خانوں میں ہوتا تھا لیکن انہوں نے اپنے لئے فقیری, درویشی اور سادگی کی زندگی کو پسند کیا, جو شاید ان کے خاندان والوں کو پسند نہیں تھا اور اسی وجہ سے خاندان والوں نے عبدالرحمن بابا کے ساتھ ملنا جلنا بہت کم کر دیا تھا..
نہ شی د خانانو ملنگانو سرہ کلی چرتہ عزیز خان چرتہ ملگ عبدالرحمن.
یہ بات بہت مشہور ہے کہ عبدالرحمن بابا اپنے علاقے دیہہ بہادر میں واقع دریائے باڑہ کے کنارے بیٹھ کر شاعری کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ دریا کی لہروں کی نذر ہو چکا ہے, لیکن تاریخ دانوں اور شاعروں نے اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رحمان بابا نے خود اپنے اشعار میں اپنی کتاب کا ذکر کیا ہے اور دریائے باڑہ کے پانی میں اشعار کا بہہ جانا صرف ایک مفروضہ ہے…
شعرا کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بابا کی شاعری کے مختلف پہلو ہیں جو زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں اور ادب کے طالبعلموں کے لئے مشعل راہ ہے.
اللہ تعالی اور رسول کریم علیہ الصواۃ والسلام سے عشق و محبت ہی اس صوفی شاعر کا اوڑھنا بچھونا تھا اور انہوں نے اولیاء کا راستہ اپنایا تھا اور اپنی زیادہ تر شاعری میں اللہ اور اللہ کے حبیب سے محبت کا اظہار کیا ہے….
عبدالرحمان بابا کی شاعری عرفان و آگہی کا قیمتی سرمایہ ہے اور ان کے کلام کو سمجھنے کے لئے اہل زبان کی نہیں اہل دل کی ضرورت ہے،،،،،
عبدالرحمن بابا کے خاندان کے افراد آج بھی دیہہ بہادر میں آباد ہیں, جن میں کچھ اب بھی شعر و شاعری کرتے ہیں.
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے شاعر اور ادیب شیخ نور علی نور کا کہنا ہے کہ 1961ء میں بننے والے رحمان ادبی جرگے نے رحمان بابا کا تصوراتی خاکہ کاغذ پر بنایا اور ان کی یہی تصاویر کتابوں رسالوں اور فن پاروں پر نقش ہیں اور یہ سب تصوراتی ہیں.
انہوں نے کہا کہ رحمان بابا کی ولادت کی درست تایخ معلوم نہیں اسی طرح انکی وفات کی تاریخ بھی معلوم نہیں ہے تاہم مختلف روایات کے مطابق انکی وفات کو تقریبا چار سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ نور علی نور کے مطابق رحمان ادبی جرگہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں نہ صرف پشتو بولنے اور سمجھنے والے بلکہ مختلف زبانیں بولنے اور سمجھنے والے ان کی شاعری پڑھتے ہیں, کیونکہ رحمان بابا کی شاعری میں ہر طبقے کے لئے پیغام ہے.
شعراء کا کہنا ہے کہ ہزار خوانی میں ان کا مزار واقع ہے جہاں اندرون اور بیرون ملک سے لوگ زیارت کے لئے آتے ہیں اور یہاں سکون کے کچھ لمحات گزارتے ہیں جبکہ مزار میں قائم لائبریری میں موجود ہزاروں کتابوں سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں.
روزانہ سینکڑوں لوگ ان کے مزار کے قریب لنگر سے مستفید ہوتے ہیں.
ہر سال رحمان بابا کے عرس میں پاکستان اور افغانستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ادباء اور شعراء شرکت کرتے اور محفل مشاعرہ سجاتے ہیں. ادب سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ رحمان بابا کے افکار, پیغام اور شاعری کو اجاگر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں کی جائیں تاکہ نئی نسل اور طلبہ ان سے استفادہ کر سکیں..

اپنا تبصرہ بھیجیں