کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر عبدالولی المعروف عمرخالد خراسانی افغانستان میں باردوی سرنگ کے دھماکے میں تین دیگر ساتھیوں سمیت مارے جا چکے ہیں۔
عمر خالد خراسانی کی گاڑی افغانستان بیرمل کا علاقہ مارغہ سے قریبی ضلع ارگون کے سفر کے دوران بارودی سرنگ کے دھماکہ کی زد میں آئی۔ ان کے ساتھ ان کے داماد علی حسان مہمند ،ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر مفتی حسن سواتی اور حافظ دولت خان اورکزئی بھی اُن کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
عمر خالد کے قریبی ساتھی عمر مکرم خراسانی نے ان کے تین ساتھیوں سمیت بارودی مواد کے دھماکے میں مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمر خالد خراسانی کا نماز جنازہ رات دس بجے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں آدا کیا گیا ہے۔ نمازہ جنازہ میں قبائلی ضلع مہمند ، سوات ، باجوڑ،وزیرستان کے طالبان نے حصہ لیا۔
عمر خالد خراسانی کو کنڑ میں دفن کیا گیا،جبکہ ان کے دیگر ساتھی مفتی حسان،علی حسن اور حافظ دولت کے بارے میں۔کہا جاتا ہے کہ انہیں پکتیکا ہی میں سپردخاک کردیا گیا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے محتصر بیان میں کہا تھا کہ عمر خالد شہادت کے واقعے سے متعلق ٹی ٹی پی اعلامیہ جاری کرے گی۔
امریکہ نے عمر خالد خراسانی کے سر کی قیمت تیس لاکھ ڈالر مقرر کی تھی۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے اس کی گرفتاری پر ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا تھا۔ عمر خالد خراسانی پاکستانی فورسز کے قتل کے درجنوں واقعات میں ملوث تھے۔
ٹی ٹی پی کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد عمر خالد خراسانی کے فضل اللہ سے اختلافات پیدا ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے ٹی ٹی پی سے راہیں جدا کئے اور اپنا الگ گروپ جماعت الاحرار بنا لیا تھا، بعد میں جماعت الاحرار سے ان کے قریبی ساتھی عمر مکرم خراسانی جو اجکل ٹی ٹی ُپی کوہاٹ ڈویژن کے آمیر ہے نے بھی راستے جدا کئے اور حزب الاحرار کے نام سے الگ شدت پسند تنظیم بنائی۔ حزب الاحرار اور جماعت الاحرار کی اپسمیں لڑائی بھی ہوئی جس میں عمر مکرم کے زخمی ہونے کی بحی اطلاع آئی تھی۔ عبدالولی نے جماعت الاحرار کی بنیاد 2014 میں رکھ کر پہلی کارروائی واہگہ بارڈر دھماکہ سے کی تھی جس میں کم از کم 60 افراد مارے جاچکے تھے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی سربراہ فضل اللہ جب ڈرون حملے کا نشانہ بنے تو ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ مفتی نورولی نے عمر خالد خراسانی اور عمر مکرم خراسانی کو دوبارہ مناکر جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کو ٹی ٹی پی میں ضم کردیا۔
عمر خالد خراسانی کا نام عبدالولی مہمند تھا اور ان کا تعلق قبائلی ضلع مہمند کی تحصیل صافی سے تھا۔ ٹی ٹی پی کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود ہی کے زمانے میں عمر خالد خراسانی ٹی ٹی پی مہمند شاخ کے سربراہ بنائے گئے تھے، ان کے دست راست احسان اللہ احسان تھے جو بعد میں ٹی ٹی پی کے ترجمان بنے اور سرینڈر ہوکر دوران حراست فرار ہوئے، عبدالولی ان سے اس عمل پر ناراض تھے مگر انہیں یاد کرتے تھے۔
عمر خالد خراسانی شدت پسند تنظیموں سے تعلق سے قبل محتصر عرصہ تک صحافت کے شعبے سے بھی وابسطہ تھے،جبکہ وہ آس وقت مہمند ایجنسی میں پشتو کے اچھے شاعر بھی مانےجاتے تھے۔
عمر خالد خراسانی کراچی کے مختلف مدارس سے دینی علوم کا طالب رہا ہے، تاہم علم مکمل ہونے سے قبل ہی وہ شدت پسند تنظیموں کا حصہ رہے اور تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا۔ عمر خالد خراسانی کشمیر جہاد میں حرکت المجاہدین کا حصہ رہے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کی دور میں اسلام اباد میں
لال مسجد اپریشن کے بعد عمر خالد خراسانی نے 2007 میں ضلع مہمند میں واقع حاجی صاحب ترنگزئی بابا کے مزار میں مسجد کو
لال مسجد کا نام دیکر مسلح جنگجوں کا مرکز قائم کیا تھا ۔
اسلام اباد لال مسجد اپریشن کے ردعمل میں اعلان کرتے ہوئے عمر خالد نے فورسز کے خلاف اپریشن غازی کے نام سے کاروائیاں شروع کی، سیکورٹی فورسز نے ان کے خلاف اپریشن شروع کی جس سے انہیں علاقہ چھوڑنا پڑا۔
عمرخالد خراسانی کا شمار ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں ہوتا تھا۔ عمر خالد خراسانی قومی میڈیا میں متعدد بار مارے جا چکے ہیں۔ سال 2017 میں امریکی ڈروان حملے میں ان کے مارے جانے کی اطلاعات تھی تاہم بعد میں خالد خراسانی دوبارہ منظر عام پر آئے۔
عمر خالد خالد خراسانی کو آخری بار گزشتہ ہفتے کابل میں دیکھا گیا تھا جب قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہلال الرحمان کے ساتھ ان کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی۔
تصویر میں عمر خالد مقامی ہوٹل میں سینیٹر ہلال سے اچھے موڈ میں بات کر رہے ہیں۔
خالد خراسانی نے کنڑ اور ننگرہار سے پاکستان میں متعدد کارروائیاں کیں سال 2015 میں اس وقت کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کے قتل میں بھی ملوث تھے۔
جماعت الا احرا کے سابق امیر اور ٹی ٹی پی شوری کے رکن عبدالولی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔عبدالولی نے تین شادیاں کی تھی۔
Load/Hide Comments