پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ۔۔ خصوصی تحریر: عماد سرحدی (افراتفریح )
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر تاریخ رقم کردی،پشاور کی سٹی منیر شپ سمیت ہر وہ اہم ضلع جہاں اس جماعت نے بڑے بڑے برج الٹے تھے اب اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، 19 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبے کے سترہ اضلاع میں تحصیل کی سطح پر پورے صوبے میں شکست کھانے والی تحریک انصاف وہی جماعت ہے جو دوبار کی قومی و صوبائی اسمبلی کی فاتح رہی،پچھلے عام انتخابات میں پورے ملک میں اکثریت لینے والی تحریک انصاف کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ساڑھے تین سال میں ہی اسکی غیر مقامی قیادت اسے عرش سے فرش پر لے آئی، پشاور میں سٹی منیر شپ اس جماعت کا تخلیق کردہ عہدہ ہے جو اس نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ڈائریکٹ انتخاب سے جوڑ دیا،خوداعتمادی کا یہ حال پی ٹی آئی کے زوال کی واحد وجہ نہیں بنا،پشاور میں اسکا منیر کا امیدوار راتوں رات پارٹی بدل کر پی ٹی آئی کا حصہ بنا اور شومئی قسمت کہ پارٹی نے اسے ٹکٹ سے بھی نواز دیا، پیرا شوٹ سے آنے والے اس امیدوار سمیت آزمائے ہوئے پرانے چہروں کی نئی نسلوں نے بھی اپنا وراثتی حق پی ٹی آئی میں شامل ہوکرلیا، پچھلے عام انتخابات سے لیکر آج تک پی ٹی آئی میں کچھ نہیں بدلا،جس نے اپنے گھر کی منڈیر پر لال سبز رنگ کا جھنڈا لگا دیا بس وہ پی ٹی آئی کا ہوگیا،اس جماعت کی تنظیم بھی ان کے ہاتھ میں ہے جو عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی الیکشن، اپنے بیٹے بھتیجوں اور داماد سے آگے نہیں دیکھ پارہے،یہ وہی جماعت جس کا لیڈر ہر جلسے میں وراثتی سیاست کی جگہ تبدیلی کی بات کرتا آیا اور عوام نے اسے موقع دیا اور بار بار دیا لیکن کیا کہیں سیاست کے پرپیچ رستوں پر آئیڈیل ازم کا شکار ہونا پڑتا ہے، پرویز خٹک،علی امین گنڈہ پور، کامران بنگش،اعظم سواتی ہو یا صوابی کے سر کے تاج اسد قیصر، ہر ایک کو اپنے بال بچوں سے پیارا کوئی نہیں لگا اور یوں وراثتی سیاست پی ٹی آئی میں اتنی شدومد سے وارد ہوئی کہ عمران خان کو اپنے کہے الفاظ شاید اب اجنبی لگتے ہوں گے،حقائق یہ بھی ہیں کہ مہنگائی کا جن پی ٹی آئی کے پالیسی سازوں کیلئے اگلے عام انتخابات تک ڈرائونا خواب بن رہاہے جس کی ایک جھلک بلدیات پارٹ ون میں محمود خان اور انکی ٹیم نے دیکھ لی، ملک کی معیشت کی تیزی سے گرتی اور قرضوں کی بڑھتی شرح کوئی اچھے اعشارئیے تو نہیں، وزیراعظم کرونا کی صورتحال کو مورد الزام ٹھہرائیں تو بھی بات بنتی ہے لیکن ڈالر کا تیزی سے بڑھتا ایکسچینج ریٹ، فارن ریزروز میں مسلسل کمی کے بعد بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے کیا کافی نہیں، وزیراعظم کو علم ہونا چاہئیے کہ کسی بھی پالیسی کا استحکام اسکو یکسو ہوکر انجام تک لیجانے میں ہے،جس ملک میں ساڑھے تین سال میں 5 بار مختلف وزرائے خزانہ یا مشیران تبدیل ہوئے وہ پالیسی کا استحکام خاص کر معیشت کے معنوں میں کیسے حاصل کر پائے، وزیراعظم صاحب! اگر آپ بھی پچھلوں کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی گزار لو،بعد میں دیکھ لیں گے تو آپکی بعد ان پیراشوٹرز اور غیر مقامی قیادت کے انتخاب سے شاید پھر کبھی نہ آئے،جن اچھے دنوں کے انتظار میں عوام نے مہنگائی اور گرانی کی صورت میں حکومت کی متواتر بدانتظامی سہی ہے اسکی اب بس ہورہی ہے،بلدیاتی انتخابات ہیں کیا چیز! جو آپ یا آپکی ٹیم کے ماتھے پر بل بھی لاسکے، لیکن، اگر پی ٹی آئی نے سیاست میں رہنا ہے تو ان معاملات پر سنجیدہ رویہ دکھانا ہوگا،قیادت کا چنائو، پارٹی کی تنظیم سازی اور اپنے کاز سے مخلص کارکنوں پر اعتماد۔۔۔نظریہ تو اس جماعت کا اب بھی قائم ہے لیکن افسوس کہ مہنگائی اور دیگر اسباب نے اپنے کارکنوں کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ حالیہ الیکشن میں بیلٹ پیپر پر اپنے انتخابی نشان کا دفاع کرسکتے،اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کی سیاست میں تبدیل کا آغاز پی ٹی آئی نے کیا لیکن اس تبدیلی کا کیا فائدہ جس کے امیدوار بیٹ کی جگہ آزاد حیثیت میں عوام کو منانے نکلے ہیں،یہی حقائق ہیں اور اگر آپ کپتان ہیں تو حالات کا سامنا کریں اور اپنے انداز حکمرانی میں بھی بدلائو لائیں ورنہ عوام کے پاس اختیار ہے کہ وہ تبدیلی کو بھی تبدیل کردیں!
Load/Hide Comments