نوراسلام داوڑ ایک سوچ کا نام بن گیا تھا، جو امن کے قیام کیلئے ملک کے آئین کو بالائے طاق رک کر لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔۔ تحریر ناصر داوڑ

وہ نہایت سادہ، عاجز، فقیر، اپنے آپ اور انسانیت کے ساتھ ایک انتہائی مخلص انسان تھے، شمالی وزیرستان پر طالبانائزیشن اور اپریشن ضرب عضب جیسے کالے بادل چھانے لگے، اور جب اس بادل سے شہری شدید متاثر ہوئے اور اپنا علاقہ شمالی وزیرستان خالی کردیا، تب بنوں میں ایک شخص نمودار ہوا، جس نے چند ساتھیوں کی مدد سے شمالی وزیرستان کے کیمپوں کو خالی کرنے اور دوبارہ وزیرستان جانے کیلئے بنوں کے سڑکوں پرنعرے لگاتا ہوا نظر آگیا، اس کے لمبے لمبے بال تھے، پہلے تو میں کچھ شک کرنے لگا کیونکہ لمبے بالوں والوں نے ایک وحشت طاری کیا ہوا تھا، جس سے ہم دور ہونا چاہتے تھے، لیکن میرے ایک دوست نے مجھے سمجھایا کہ یہ شخص ان لمبے بالوں والوں میں سے نہیں بلکہ اسے تھوڑا اپنے قریب لاکر دیکھ لیں انتہائی مخلص دیانت دار اور شریف انسان ہے، باتوں باتوں میں اس نے عرض کیا کہ ان لوگوں کو ان کے گھروں تک واپس پہنچانے تک وہ دوبارہ عرب امارات نہیں جائینگے جہاں انہوں نے اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے آئے تھے،
جی ہاں وہ تھے یوتھ آف وزیرستان کے بانی صدر حاجی نوراسلام داوڑ جسے نامعلوم مسلح نقاب پوشوں نے27 اکست کی شام میرعلی بازار سے گھر جاتے ہوئے راستے میں شہید کیا،
وہ ان کے خاندان کا واحد کفیل تھا، ان کے پانچ بچے یتیم ہوگئے، لیکن وہ اپنے پیچھے ایک نام چھوڑ دیا، معاشی لحاظ سے وہ کافی حد تک کمزور انسان، مگر اس کے سوچ نے وزیرستان کو ہلاکر رکھ دیا،
جب شمالی وزیرستان کے شہری اپریشن ضرب عضب کے دوران بنوں میں آباد تھے، تب انہوں نے بے گھر افراد کے پڑھے لکھے جوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اس سے یوتھ آف وزیرستان کے نام سے ایک تنظیمی شکل دی، دو ڈھائی سال محنت کے بعد حکومت کو پریشرائز کرکے ان کے علاقوں میں بتدریج واپسی کا عمل شروع کیا، وہاں پہنچتے ہی عوامی مسائل کیلئے ایک بار پھر انہوں نے علم بلند کرکے اپنے تنظیم کے ممبران کو آخر تک انتہائی متحرک رکھا، جو ہر مسئلے کے حل کیلئے نوراسلام داوڑ جوانوں کے تنظیم کے ساتھیوں سمیت ڈول بجا بجا کر احتجاج کیا کرتے تھے، شمالی وزیرستان میں امن و آمان کی بحالی کیلئے پہلی بار میرعلی چوک میں دھرنا دیا تھا، جو اب اسی کے نام سے ( نوراسلام شہید چوک میرعلی ) منسوب ہوا، اس دھرنے کے خاتمے کیلئے اس پر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کافی حد تک پریشر آیا، تا ہم وہ ماننے کو تیار نہ ہوئے، بعد میں ان کے دیگر ساتھیوں سمیت ان کو زبردستی اٹھایا، چند روز تک ان کے ساتھ تھے، رہائی کے بعد ان کے جسم پر بے پناہ تشدد کے نشانات موجود تھے، جبکہ اس کے سر میں متعدد فریکچر بھی آئے تھے،
شہید نوراسلام داوڑ نے شہریوں کو اپنے حقوق کیلئے لڑنے کا حوصلہ دیا اور منہ میں زبان،،، حالانکہ اس سے قبل سیکیورٹی ادارے تو دور کی بات ہے انتظامیہ کے خلاف بھی کوئی بولنے کو تیار نہ تھا، لیکن نور اسلام نے ہر مسئلے پر احتجاج کرتے کرتے لوگوں کو حقوق مانگنے کا شعور دیا، اور ایسے لوگوں کی عمریں ہوتی ہے کم،، جو موصوف کو بھی شہید کا نام دیا، حالانکہ آج بھی ان کے ساتھ شہید کا لفظ لکھتے ہوئےمیری انگلیاں رک جاتی ہیں، مگر پھر حوصلہ رکھ کر لکھنا شروع کرتا ہوں کہ بعض تلخ حقائق سے کوئی انکار بھی تو نہیں کرسکتا،
شہادت سے دو روز قبل آخری بار جب میری اس سے کسی مسئلے پر باتیں ہورہے تھے، میں نے ویسے ہی گپ شپ میں انہیں بتایا کہ صدر صاحب کوئی سیاسی جماعت تو جوائن کرنے کا ارادہ تو نہیں، انہوں نے کہا کہ ازمائے ہوئے کو کیا ازمایا جائیگا، بس سب اپنی جگہ ٹھیک ہے، تاہم اگر میں کسی سیاسی جماعت کو جواائن کرنا چاہوں تو الحاج شاہ جی گل کی نئی پارٹی تحریک استحکام پاکستان جوائن کرونگا۔۔۔۔ لیکن یہ بات انہوں نے سنجیدگی سے نہیں کی کیونکہ شہید کا مزاج ساسی جماعتوں سے مختلف تھا، جس کے ساتھ ہر سیاسی جماعت کے لوگ چل سکتے تھے، اور شائد ان کی کامیابی کا راز بھی یہی تھا، جس نے خود کو سیاست سے دور رکھا تھا، وہ محض شہریوں کے بنیادی مسائل پر سوچتا تھا، بات کرتا تھا، اور ڈھول بجاکر احتجاج کرسکتا تھا، جو نہ کسی سے ڈرتا تھا، اور نہ ہی ڈرنے والوں میں سے تھے، اس نے ہمیشہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن زندگی بہتر والا فارمولا اپنا یاتھا،
اس نے ایک روز مجھے بتایا کہ کسی طریقے سے میرعلی میں ایک پریس کلب قائم کریں، وہ ہر قسم کے تعاؤن کیلئے تیار ہے، میں نے اس سے سوال کیا کہ پریس کلب کا کیا کرنا ہے، اس نے کہا کہ وہ روز احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، پریس کلب کا نہ ہونا ان کیلئے بڑا مسلہ ہے، جس کیلئے وہ بنوں یا میرانشاہ جاتے ہیں، جو اس کیلئے مہنگا پڑتا ہے، کیونکہ اکثر ان کے ساتھ گاڑی کے بھی پیسے نہیں ہوا کرتے تھے، اس لئے اگر ان کے شہر میرعلی میں پریس کلب قائم ہو جائے تو پورے خیبر پختونخوا کے پریس کلبوں سے ذیادہ میرعلی کا پریس کلب فعال رہیگا، جہاں لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے روز دھرنے دینگے، احتجاج کرینگے، بھوک ہڑتال کیمپ ہوگا، اور ساتھ ڈھول کی تھاپ پر پشتون روائتی آتنڑ بھی ہونگے۔
شہید کے دل میں شہریوں کیلئے زندگی آسان کرنے کیلئے ڈھیر سارے خواب ادھورے رہ گئے، مگر آج بھی ان کے وفادار دوست یوتھ آف وزیرستان کے جوان انہیں بھلانے والے نہیں، معاشی بدحالی سے بے پرواہ یوتھ آف وزیرستان کے جوانوں نے ان کی یاد میں شمالی وزیرستان کے دوسرے بڑے شہر میرعلی میں موجود موصوف کے نام سے منسوب ( شہید نوراسلام چوک میرعلی ) میں 24 اکتوبر کو ان کے چہلم کی مناسبت سے جس احتجاجی جلسے کا انعقاد کیاگیا ہے قابل ستائش عمل ہے، اور مجھے ایسا لگ رہاہے کہ شہید کے دوست یوتھ آف وزیرستان کے ممبران عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ان کے مشن کو ادھورا نہیں چھوڑینگے بلکہ آگے لے جائینگے، عوام کی خدمت کیلئے شہید نوراسلام داوڑ کی خدمات پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، مگر تحریر کو مختصر رکھنے کیلئے فی الحال اتنا ہی کافی ہے، اگر زندگی رہی تو ان کے دوستوں یوتھ آف وزیرستان کے ساتھ شہید کے چہلم کے موقع پر ملاقات ہوگی، انشااللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں