کیا طالبان بدل رہے ہیں؟ احسان داوڑ

افغانستان پر طالبان کا قبضہ ایک حقیقت کی شکل میں سامنے آیا ہے اور اب اس سے انکھیں چُرانا ممکن نہیں رہا۔ 20 سال کے بعد افغانستان پر ایک بار پھر طالبان کے قبضے کے بعد پوری دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہو ئی ہیں اور انتظار ہے کہ کب طالبان اپنے مستقبل کے طرز حکومت کا اعلان کرینگے تاکہ ان کے تحت افغانستان میں نافذ ہونے والے نظام کے خدوخال واضح ہو جائیں اور پھر اس کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک اور عوام اپنا رد عمل دے سکے گے۔طالبان کا نام سنتے ہی ذہن میں شدت پسندی کے سائے بھی لہرانے لگتے ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے اقدامات دنیا کی نظروں میں شدت پسندانہ اور غیر انسانی سمجھے جاتے ہیں۔طالبان کے پچھلے دور حکومت میں خصوصی طور پر خواتین کے حقوق، تعلیم کے ساتھ ان کا متعصبانہ رویہ، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے نہ ہونے کے برابر گنجائش اور اسلام کا انتہائی سخت گیر شکل دنیا کو یہ باور کرانے پر مجبور کر چکی ہے کہ یہ لوگ اپنے نظریات اور کٹر مذہبی عقائد کی بدولت انسانی حقوق کی پامالی کو خاطر میں نہیں لانے والے ہیں اس لئے کابل پر طالبان کے قبضے سے پوری دنیا کو تشویش لاحق ہے اور خاص طور پر افغانستان کے قریبی ممالک میں تو گویا صف ماتم ہی بچھ گئی ہے کیونکہ افغانستان میں حالات کا قریبی ممالک کے حالات پر کافی گہرا اثر ہوتا رہا ہے اور اس کی واضح مثال پاکستان بالخصوص قبائلی علاقے ہیں جہاں افغانستان کے طالبان سے شہ پاکر پاکستان میں طالبان کی تنظیمیں جڑیں پکڑتی گئیں اور ایک وقت وہ بھی ایا جب قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی۔ مجھے اج بھی اگست 2000کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے شہر میرعلی میں کئی سو طالبان مدرسوں سے نکل کر میرعلی بازار میں راکت لانچروں اور مشین گنوں سے لیس ہو کر تمام میوزک سینٹروں اورٹی وی سیٹس کو زبردستی جمع کرکے میرعلی چوک میں ایک ہوٹل کی تسری منزل سے گرائے دئے اور پھر نذر اتش کردئے یہاں تک کہ ٹیلرماسٹرز کی دکانوں سے بھارتی اداکاراؤں کی تصاویر بھی پھاڑ دئے۔ قبائلی علاقوں جیسی سخت گیر معاشرے میں اس قسم کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان ایک قوت تھی جس کے سامنے کو ئی بھی انے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔یہ تو ان دنوں کی کہا نی ہے جب نائن الیون کا واقعہ ہوا ہی نہیں تھا لیکن افغانستان میں طالبان حکومت سے حوصلہ پاکر ہمارے ہاں کے مدرسوں میں موجود طالبان تحصیل علم کے بجائے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو ئے کیونکہ ہر دو طالبان کا اپس میں گہرا تعلق تھا اور افغانستان کے طالبان میں اکثریت ایسے طالبان کی تھی جو پاکستان کے دینی مدارس سے پڑھے ہوئے تھے اور وہ اپنے پاکستانی اساتذہ کیلئے عقیدت و احترام کے جذبات رکھتے تھے۔اس زمانے میں بہت سے علماء ایسے تھے کہ جو وقتاً فوقتاً کابل کا یاترا بھی کرتے تھے اور عملاً انہیں اس وقت کے طالبان امیر ملا عمر کے مشیروں کا درجہ حاصل تھا۔اس لئے یہ کہنا کہ طالبان صرف افغانستان پر قابض ہوئے ہیں ٹھیک نہیں بلکہ اس کے اثرات پڑوسی ممالک میں بھی محسوس کئے جائینگے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا طالبان اب بھی 2000سے پہلے والے نظریات لیکر افغانستان میں داخل ہوئے ہیں یا ان کے نظریات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی ائی ہے۔ بظاہر تو لگتا یوں ہے کہ طالبان نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم اہنگ ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ ان کے ٹاپ لیڈرشپ کے بیانات اور کچھ اقدامات سے لگ رہا ہے جن میں عام معافی کااعلان، خواتین کو کام پر جانے کی اجازت دینا، غیر ملکیوں کو تحفظ کی فراہمی، تمام سرکاری عہدیداروں کو اپنے اپنے کام جاری رکھنے اور افغانستان کے تمام قومیتوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت کے قیام کا عندیہ ایسے اقدامات ہیں جن سے ہم یہ خوش گمانی رکھ سکتے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں اور اب شاید وہ دنیا کے قدموں سے قدم ملا کر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ویسے بھی اگر وہ اپنے سابقہ نظریات کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں تو افغانستان ایک بار پھر الگ تھلگ رہ جائیگا اور اس کا خمیازہ بیچارے افغان عوام کو بھگتنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ افغانوں کی ایک کثیر تعداد افغانستان سے منتقلی کا فیصلہ بھی کر لیں اور یہ وحشت تھی کہ افغانوں نے جہاز سے لٹک کر نکل جانے اور اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگانے میں عافیت سمجھی نہ کہ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں رہنا۔ طالبان کو اس نقطے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ صرف طالبان کا افغانستان چاہتے ہیں تو بیشک وہ اپنے متشددانہ نظریات کے ساتھ حکومت شروع کریں، ڈنڈے کا بے دریغ استعمال کریں اور ان کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو گولیوں سے اڑائیں اور اگر وہ ایک مضبوط، خوشحال اور فلاحی ریاست کا قیام چاہتے ہیں تو پھر انہیں سوچنا ہو گا، افغانستان کیلئے، افغان عوام کیلئے اور خود اپنے لئے کیونکہ ریاست سب کی ہوتی ہیں صرف حکومت کرنے والوں کی نہیں۔یہی ایک نقطہ ہے جو افغانستان کے مستقبل کو واضح کرسکے گا اور اس کیلئے سب کو انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ابھی تصویر نامکمل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں