20 سالہ جنگ میں شکست کسی کو نہیں، کامیابی دونوں فریق کو ہوئی، تحریر ناصر داوڑ

امریکہ وہ واحد ریاست ہے جو اپنے مفادات کیلئے دوست بدلتا رہتا ہے اور کب دشمن دوست بن جائے یہ بھی امریکی تاریخ کا حصہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں امریکہ سب کا پڑوسی ہے،ماضی قریب میں ہم نے دیکھ لیا کہ عراق کے بعد القائدہ کے خلاف لڑنے کیلئے ایک مشکل جنگ شروع ہوئی، 20 سال تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ، B52 طیارے سے لیکر ہر قسم کا اسلحہ کا ذخیرہ استعمال کیا،جہاں کسر رہ گئی وہاں امریکی ڈرون طیاروں نے باقی کام کیا،اس نے نہ صرف افغانستان میں ڈرون طیاروں سے کام لیابلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی ایک ایک کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کیا۔
تو جان لیں امریکہ افغانستان میں افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرنے نہیں بلکہ القائدہ کو ختم کرنے کیلئے آیا، امریکہ کو القائدہ سربراہ افغانستان یا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے ایک پر امن شہر ایبٹ آباد سے برآمد ہونے پر اسکو وہیں ایک خفیہ آپریشن میں مارنا پڑا اور اس کیلئے اس نے اپنے اتحادی کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد امریکہ نے ان کے باقیات کو نشانہ بنایا، اسی دوران افغانستان سے موصول ہونے والے اطلاعات کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں پہلے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف داعش کو سپورٹ کیا، لیکن یہ چال کامیاب نہ ہوسکتی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ امارت اسلامی افغانستان نے داعش کیلئے سرزمین افغانستان کو آگ کی بھٹی میں تبدیل کردیا، داعش کو شکست دینے کے بعد ان کے بیشتر ممبران نے افغان حکومت کے سامنے سرنڈر کرکے پاکستان مخالف تنظیم بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور اب بھی اس کا حصہ ہیں،یہی وہ اہم مہرہ تھا جس کیلئے انڈین نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر اجیت دوول بھارت سے کابل کے دورے کرتے رہے اجیت دیول ہی نے افغانستان میں موجود ایسٹ ترکستان اسلامک مؤومنٹ (ETIM) جو بعد میں ترکستان اسلامی پارٹی (TIP) بن گئی کو ان کیلئے بطور ٹرینرمقرر کیا اور ان جنگجوؤں کو بلوچستان بھیج دیا جہاں آج بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔

افغان حکومت کو دھوکے میں رکھ کر امریکہ نے ان سے پوچھے بغیر افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا، امن معاہدے کے دوران دکھا گیاکہ امریکہ نے افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا، امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدے پر دستخط کے دورا منعقدہ تقریب میں نہ تو افغانستان کا جھنڈہ نظر آئی نہ امریکہ کی، بلکہ امارت اسلامی افغانستان کے بینر تلے امن کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، جہاں دستخط ہورہے ہیں اس پیڈ پر بھی اسلامی جمہوری افغانستان ( JOINT DECLARATION BETWEEN THE ISLAMIC REPUBLI OF AFGHANISTAN AND THE UNITED STAE OF AMERICA FOR BRINGING PEACE TO AFGHANISTAN )

داعش کے افغانستان سے خاتمے کے بعد امریکہ نے دشمنی کو دوستی میں بدلنے کا سوچا اور یہ وہ وقت تھا جب امارت اسلامی اور امریکی حکام کے مابین دوحہ میں امن مذاکرات چل پڑے جس کا نتیجہ 18 ماہ کے بعد 29 فروری 2020 کو باقاعدہ معاہدے پر دستخط کی صورت میں نکلا۔افغان حکومت اس دوران امریکہ کی دوستی میں اتنی خوداعتمادی کا شکار ہوئی کہ اس نے طالبان اور امریکہ کے مذاکرات میں اپنی علاقائی سالمیت کیلئے بھی دوحہ بات چیت میں دلچسپی نہ لی،نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے طالبان کو فریق اول کا درجہ دیکر اشرف غنی کو ثانوی درجہ پر اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کردیا، افغان حکومت کی ہٹ دھرمی معاہدے پر دستخط تک برقرار رہی اور پھر امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدے پر دستخط کے دوران منعقدہ تقریب میں نہ تو افغانستان کا جھنڈا نظر آیا نہ امریکہ کا، بلکہ درحقیقت امارت اسلامی افغانستان کے بینر تلے امن کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، جہاں دستخط ہورہے ہیں اس پیڈ پر بھی اسلامی جمہوری افغانستان ( JOINT DECLARATION BETWEEN THE ISLAMIC REPUBLI OF AFGHANISTAN AND THE UNITED STATE OF AMERICA FOR BRINGING PEACE TO AFGHANISTAN )
تحریر تھا،اس معاہدے کے ساتھ ہی امریکہ کے خطے میں پارٹنرز بدل گئے،اسی روز افغان حکومت کو فیصلہ سنانے کیلئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کابل پہنچے اور انہیں بین الافغان امن مزاکرات کی تیاری کیلئے کہاگیا۔یہ مذاکرات ایک نہیں کئی بار ہوئے لیکن افغان قیادت کی ہٹ دھرمی کا سلسلہ اتنا دراز ہوتا گیا کہ آخر کار 16 اگست کو اشرف غنی کچھ لے دے کے ماننے کی بجائے مکمل طور پر اقتدار سے بیدخل ہوگئے،سقوط کابل کے بعد تو اب سابق افغان قیادت کو طالبان کی شرطوں پر اقتدار تو مل سکتا ہے لیکن ایک فریق کی حیثیت کبھی نہیں مل سکے گی۔
یہ بھی پڑھئے: افغانستان پر تجزیہ کاروں کی خدمت میں چند گزارشات۔۔۔ تحریر: ناصر داوڑ

امریکہ کو افغانستان میں شکست سمجھنے والوں کیلئے اتنا عرض کروں کہ امریکہ افغان طالبان کےخاتمے کیلیے نہیں بلکہ القائدہ کے خلاف کارروائی کیلئے آیااور اپنا مشن مکمل کرکے نکل گیا۔اس نے طالبان کو ہٹانے کیلئے آپ کے دوست بنایا اور اب انخلاء کیلئے اسی دشمن سے دوستی کرکے ساری بساط ہی الٹ گیا۔افغان حکومت پر اب طالبان کا اقتدار قائم ہورہا ہے اور 20 سال بعد وہ اپنے اس موقف کے باعث پھر سے افغان عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ افغانستان کو غیر ملکی قبضے سے چھڑا لیا گیا ہے امریکہ اپنی جگہ پر فاتح کہلانا چاہتا ہے کیونکہ اس نے نتائج بدلنے کیلئے فریق بدلنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی،اب ہوشمندی سے دیکھیں تو افغان قیادت کے پاس کیا بچا،اشرف غنی سفر کی تھکن اتار لیں تو اس پر بھی غور کرلیں ورنہ افغان عوام کو ان سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ انٹرا افغان مذاکرات کا بائیکاٹ کرکے کہیں وہ طالبان کے آلہ کار تو نہیں ثابت ہوئے۔۔۔سوال تو بنتا ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں