جس طرح ہمارے مظبوط و توانا اور مثالی صحت کے مالک وزیر دفاع جناب پرویز خٹک صاحب خبروں میں ان رہنے کے لئے کھبی یہاں سے گدوں کو چین بیجھنے کی باتیں کرتے ہیں، یا کنٹیر پر چھڑکر وزیراعلی ہوتے ہوئے باجی دیدار یا نرگسی سٹائل میں ڈانس کرتے ہیں اگرچی انہوں نے پھر تردید بھی کی تھی کہ میں ڈانس نہیں کرہا تھا بلکہ مرغے کی دم کی طرح ہوا مجھے ادھر ادھر ہلا رہی تھی اور ثبوت میں اپنا بیالیس کلو وزن کی سند پیش کیا کرتا تھا، اسی طرح ہمارے صحت مند اور بھاری بھرکم صحت کے مالک ایمل ولی بھی خبروں میں ان رہنے اور اپنی وزن کی طرح اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے وقتا فوقتا چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں، لیکن مسلۂ ادھر سے شروع ہوتا ہے کہ وہ سیاسی چٹکلوں کی کوشش میں گاوں کی کسی بوڑھی خالہ کی طرح گھریلوں ٹوٹکے ہی چھوڑتے ہیں جن کی سمجھ نہ اسے خود اور نہ ہی سرخ پوشوں کو سمجھ آتی ہے،جہاں تک ڈھول طبلے سیکھانے کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ سروتال ہماری ثقافت کا حصہ ہے، میوزک روح کی غذاء ہے، فن کاروں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، یہ کام اگر باچا خان مرکز سے شروع کیا جائے تو ھم اس کی تعریف کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں، اور ہم اس پر فخر بھی کرتے ہیں،
لیکن جب اسے یہ تمیز سیکھانے کی نوبت آجائے کہ صحافتی اور ثقافتی سرگرمیوں، طریقہ کار، کام کی نوعیت اور اہمیت میں بہت بڑا فرق ہے لہذا اسے پی ڈی ایم کی طرح مکس اچار مت بناؤ، پھر ریئل میں کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ یہ بندہ کس طرح اس بکھری ہوئی اور سینکڑوں اذیتوں سے دوچار قوم کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو نکالنے کا ہنر، سلیقہ اور جرات رکھ سکتے ہیں؟
ایمل ولی اس شرابی کی طرح خود کی اہمیت بڑھانے میں لگے رہتے ہیں جو محفل میں چھا جانے کی خاطر پی پی کر آخر میں آپنی عزت اور ہمنواؤں ہم پیالا دوستوں کو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑتے، موصوف پہلے بولتے ہیں، بعد چارسدوال چاول کھاکر، لسی نوش کرکے سوچتے ہیں کہ کچھ زیادہ ہی بولا اور پھر اس کی تردید میں ایسا بیان داغ دیتا ہے کہ لوگ پہلے والے بیان پر ماتم کرنا چھوڑ کر نئے بیان کو معذرتوں، عذرخواہیوں کی لفظوں کے پاجامے پہنا پہنا کر اس قابل بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم اس کی بات کو سمجھا تو جائے؟ لیکن موصوف کی باتیں سمجھنے کے لئے موصوف جیسا کلیجہ، سر، دماغ اور دل چاہئے جو عام انسانوں کی بجائے کسی قصاب کی دوکان کے آگے لٹکتے نظر آتے ہیں،
سیاست کرتے ہیں، ہر ایشو پر دل و منہ کھل کر بات کرتے ہیں اور پھر صحافت کو ہی ہدف تنقید بناتے ہیں، پھر سیاست کیسے فرماوگے چھوٹے عمر کے بھاری قد والے بابا جی؟
ان کے تجزیوں کو بھی یہی صحافت برداشت اور ٹیلی کاسٹ کرتی ہے، ورنہ ان کی تجزیوں کو مئی کی مہینے میں بھی سردی لگ جاتی ہے،
اگر افریقہ کے کسی جنگل میں ایک بھینسا کیچڑ میں پھسل کر زخمی ہوجائے تو کل اخبارات میں موصوف کا بیان آتا ہے کہ ہماری ساری ہمدردیاں افریقی بھینسے کے ساتھ ہیں،
وہ کیوں زخمی ہوا؟
کس نے دکھا دیا؟
کون قصور وار ہے؟ کیا کرنا چاہئے اب؟
ان سوالوں کا ذکر اذکار موصوف کی بیان میں نظر نہیں آتا،
اس لئے موصوف کو چاہئے کہ تھوڑا بہت ٹھنڈا کھائے،ویسے بھی سرے دریاب کی مچھلیاں بہت گرم ہوتی ہے،ان کی کاندھوں پر بہت بڑی زمہ داری آئی ہے،
مچھلیاں اور ان کے مسائل، کریلے کی کڑواہٹ کی اصل وجہ، مولوی اور حسینہ کی خواب، چارسدے کی تاریخی چھولے، پشاوری آئس کریم کی اہمیت، گرمی اور سردی میں فرق اور فرشتوں اور حوروں کی لڑائی نامی کتابوں کو پڑھنے کی بجائے صحافت کی تاریخ، صحافیوں کی قربانیاں نامی کتابیں پڑھا کریں اور اگر یہ بھی نہیں پڑھ سکتے تو اپنے جدابجد باچا خان کی کتاب میری جدوجہد تو پڑھ لیں تاکہ کم از کم اسے کچھ تو سیاست اور صحافت کے بارے معلومات حاصل ہو، ورنہ یوں ان کی جوانی اور سیاست تردیدوں میں گذر جائیگی،
رشیدافاق پشاور
