افغان طالبان اور ان کے فضائل۔۔ خصوصی تحریر:- ناصر داوڑ

ایک آدمی جب کسی مرض یا بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو فطری طور پر وہ اپنے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کیلئے دعائیں دیتا ہے مگر صرف پاکستانی واحد قوم ہیں جو دہشتگردی جیسے مرض سے گزرنے کے بعد بھی افغانستان میں حکومت اور طالبان کے مابین جنگ جیسے مرض کو روکنے کیلئے اقدامات تو کیا دعائیں بھی نہیں دیتے، بلکہ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا طالبان جنگجوؤں کے فضائل بیان کرتا اور انکے قصیدے پڑھتا ہے، پاکستانی حکام اور میڈیائی مخلوق افغانستان میں اسلامی نظام کے قیام کے نام پر جنگ کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ یہاں ہم خود جمہوری نظام کو تقویت دینے کیلئے ان ہی طالبان کے ساتھ ایک طویل جنگ سے گزرے ہیں بلکہ آج بھی گزر رہے ہیں، پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ نے اسمبلی فلور پر ایک تقریر کے دوران کہا کہ اگر طالبان اتنے اچھے ہیں؟؟ اتنے معصوم ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنی پارلیمنٹ کو ان کے حوالے کر دیں؟؟
محسن داوڑ کو ایسی باتیں کرنے پر غدار قرار دیا گیا مگر عوام کے دلوں سے ان کی باتوں کی اہمیت کوئی نہیں نکال سکتا ،

سینئیر صحافی فاروق فراق نے بتایا

کہ افغان پارلیمنٹ کے ممبران اور دیگر اداروں کے سربراہان میں 30 فیصد سے زیادہ علماء اور حافظ قرآن ہیں، افغانستان کے تمام شہروں میں دینی مدارس اور مساجد فعال ہیں، وہاں کے شرعی فیصلے کرنے کیلئے علماء پر مشتمل عدالتیں فعال ہیں، ابھی تک ایک بھی افغان شہری یا سیاسی جماعت نے کوئی شکایت نہیں کی کہ افغانستان میں اسلام کو کوئی خطرہ ہے، پارلیمنٹ فوج ، عدالت سب کے سب مسلمان ہیں اور یہی لوگ وہاں کی مساجد میں بھی نمازیں پڑھتے نظر آتے ہیں جس کی زندہ مثال حالیہ دنوں میں گزرنے والی عید الاضحیٰ کے موقع پر صدارتی محل کے اندر حکومتی اور سیاسی قیادت نے ایک فوجی جوان کی امامت میں نماز عید ادا کی،

فاروق فراق کہتے ہیں کہ فوجی کی امامت کے ذریعے افغان حکام دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے فوجی عالم دین بھی ہیں۔
پاکستانی سیاسی جماعت سے وابستہ ہر حکمران پاکستان میں عوام کی رائے سے اسلامی جمہوری نظام کو متعارف کرانا چاہتا ہے مگر افغانستان میں عوامی رائے کے برعکس بندوق کی نوک پر اسلامی نظام کے خواہاں ہیں ۔۔ اسے کہتے ہیں دوہرا معیار !! جس کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر بدنام ہو کر رہ گیا ہے۔
افغانستان میں طالبان ان کی خواہش کے مطابق نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس سے قبل بھی طالبان کا سخت رویہ، نماز کے اوقات میں دکانوں بازاروں کی بندش، خواتین کو سرعام کوڑے مارنا، قتل کرنا، موسیقی پر پابندی، بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا، خواتین پر کسی بھی طرح سے کام نہ کرنے کی پابندی اس جیسے دیگر سخت رویوں کے باعث وہ بدنام ہوئے تھے۔
اب افغان طالبان دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں جس کا دکھ ہر افغانی کو ہے، اب اگر افغان طالبان نے اپنا سخت رویہ اور عوامی رائے کے برعکس افغانستان کی نمائندگی حاصل کرنے کی کوشش کی تو شاید افغان شہری ایک بار پھر پریشانی سے دوچار ہو جائیں گے۔
افغانستان میں صرف حکومت اور طالبان ہی نہیں بلکہ یہاں مختلف زبانیں اور قومیتیں بھی ہیں جن کا ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ایک مسئلہ ہے، ازبک، تاجک، پشتون اور دری قومیت پر مشتمل ان کے جنگی کمانڈرز ۔۔۔ طالبان اگر بندوق کے زور پر آ رہے ہیں تو یہاں خانہ جنگی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے، عوامی رائے کے بغیر کوئی بھی قوت جنگوں سے چور افغان شہریوں کو ناقابل قبول ہو گی، وہ کسی ایسی قوت کی حمایت نہیں کریں گے جو ان کی رائے کا احترام نہیں کرتی!!

اپنا تبصرہ بھیجیں