- گزشتہ روز نامعلوم افراد نے خدی کے علاقے سے ایک گیارہ سالہ بچے نذیر اللہ کو اس وقت اغوا کیا جب وہ سکول سے گھر واپس ارہے تھے ۔ خدی گاؤں کے لوگوں نے چغہ پارٹی تشکیل دی اور اغواکاروں کے پیچھے گئے لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ملی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اغواکاروں نے باقاعدہ پلاننگ کی تھی ۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اتنے معصوم بچے کے اغوا کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں لیکن اس سے جُڑی ہوئی ایک کہانی یاد آئی ۔
سن 2000 ء کی بات ہے اس وقت ہمارے پولیٹیکل ایجنٹ ڈاکٹر تاشفین تھے ۔ مجھے اے پی اے میرعلی کی وساطت سے اطلاع دی گئی کہ کابل خیل شیواہ میں ایک اہم جرگہ طلب کرلیا گیا ہے، مجھے بھی کوریج کیلئے لیجانا چاہتے تھے، وہاں پہنچے تو کابل خیل کے تمام ذیلی شاخوں کے عمائدین جرگے کی شکل میں براجمان تھے ۔ پولیٹیکل ایجنٹ ڈاکٹر تاشفین اور اسسٹینٹ پولیٹیکل ایجنٹ سمیت جرگے میں بیٹھ گئے، اس جرگے سے چند دن پہلے کالج کے ایک طالبعلم عبدالصمد ان کی خاندانی دشمنی کی بنا پر قتل کیاگیا تھا، اس قتل ناحق کے بعد کابل خیل جس کی دشمنیاں مشہور ہے، قبیلے نے یہ معاہدہ ( ٹینگہ ) کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو سکول ، کالج اور یونیورسٹی سمیت کسی بھی تعلیمی ادارے کے طلبا کو ان کی خاندانی دشمنی کی بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا ۔ مجھے ذاتی کابل خیل قبائل کے اس شعور سے دلی اطمینان یوا، کہ شکر ہے کہ وزیرستان میں کابل خیل قبائل میں اتنا تو شعور آیا ہے کہ اپنے مستقبل کو ذاتی عناد میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔ بعد میں میں نے ڈاکٹر تاشفین صاحب سے درخواست کیا، کہ دیگر قبائل کو بھی ایسے ہی معاہدوں ( ٹینگوں ) پر مجبور کیا جائے تاکہ ہمارے طالب علم ازادانہ ماحول میں اپنی تعلیم حاصل کرسکےجو اس وقت نہ ہوسکا ۔ اسی دن کےجرگے کے ثمرات آج کھل کر سامنے ہے، کہ اپس کی دشمنیوں کیلئے مشہور کابل خیل میں تعلیم کی شرح کافی اطمینان بخش ہے اور اس دن کے بعد اج تک کابل خیل قنؤبیلے میں کسی طالبعلم کو ان کی خاندانی دشمنی کی بھینٹ نہ چڑھ سکا، اور علاقے میں کافی حد تک امن بھی قائم ہوا، حالانکہ یہاں کی دشمنیاں نسلوں کی بربادی تک نبھارہے ہیں۔
اب شمالی وزیرستان کے مین شاہراہ پر مقیم خدی کے نذیر اللہ کے اغوا کے خلاف ٹوچی ماڈل سکول کے طلباء نے اج ایک پُرامن احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھی کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرکے دھمکی دی ہے کہ اگر ایک دو دن میں انہیں بحفاظت بازیاب نہیں کرایا گیا، تو وہ مین روڈ کو بند کرینگے جس کی تمام تر ذمہ داری شمالی وزیرستان کی انتظامیہ اور پولیس پر عائد کی جائیگی۔
طلبا نے ضلعی انتظامیہ بالخصوص ڈی سیشمالی وزیرستان شاہد علی خان اور ڈی پی او شفیع اللہ گنڈاہور سے مطالبہ کیا ہے، کہ طلباء کی حفاظت کیلئے خصوصی اقدامات اپنائیں، اور مغوی طالب علم نذیر اللہ ساکن خدی میرعلی کی فوری اور بحفاظت بازیابی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری بہرٓحال ریاست کی ہی ہوتی ہے ۔ تاہم اغوائیگی کے اس افسوس ناک واقعہ کے بعد اب تک انتظامیہ اور پولیس مخمصے کا شکار ہے۔
![](https://thekhybertimes.com/wp-content/uploads/2021/06/Students-Protest--969x630.jpg)