ازل سے لیکر اب تک انسان اور فطرت میں ایک دلچسپ مقابلہ جاری ہے جس میں بظاہر تو انسان مسلسل گول کئے جا رہاہے لیکن فطرت شاید مقابلہ کر ہی نہیں رہا ہے بلکہ اپنے ہی نظام کو چلا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسا ہو تا ہے کہ فطرت انسان کو صرف یہ بتاتا رہتا ہے کہ انسان کچھ بھی کریں وہ ہمیشہ فطرت کے سامنے بے بس ہے اور بے بس ہی رہے گا۔ بعض تو ایسے مواقع بھی ائے ہیں جب انسان نے فطرت کے اصولوں کو جب بھی سبو تاژ کرنے کی سعئی لاحاصل کی ہے تو اسے فطرت کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صنعتی ترقی کے زعم میں مبتلا اج کے مغرور انسان نے اربوں ٹن زہریلے گیسز کو فضاء میں چھوڑنے کی جو غلطی کی ہے اس کی پاداش میں اج یہی انسان مسلسل بڑھتی ہو ئی درجہ حرارت کی صورت میں فطرت سے دشمنی کا خمیازہ بھی بھگت رہا ہے۔ اس طرح کھانے پینے کی قدرتی اشیاء کو چھوڑ کر انسان نے جب سے مصنوعی اشیاء کا سہارا لینا شروع کردیا ہے تب سے انسان کو مختلف سنگین نوعیت کی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ ایسی بیماریاں جن کا پہلے ذکر تک نہیں سنا تھا اج ہمارے ماحول میں عام نوعیت کی بیماریاں سمجھی جا تی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہارٹ اٹیک کا شکار ہورہے ہیں، فالج سے لاکھوں کروڑوں جوان لوگ معذور ہورہے ہیں۔ اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے فطرت کو تسخیر کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اج کا انسان واقعی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ہی ترقی کرچکا ہے لیکن اب بھی فطرت کے سامنے ویسے ہی بے بس ہے جس طرح ہزاروں سال پہلے کا انسان بے بس تھا اور شاید ہمیشہ بے بس ہی رہے گا۔
انسان اور فطرت کی اسی انکھ مچولی کی طرف میری توجہ اس لئے مبذول ہو ئی کہ رات کو اسمان کی طرف دیکھا تو ستارے خوب چمک رہے تھے پوری فضاء خاموش اور نکھری نکھری سی لگ رہی تھی جس کی ایک وجہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں الودگی میں دیکھی جانے والی واضح کمی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے شہر کی اس الودگی بھرے ماحول میں اسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھنے کیلئے انکھیں ترس گئی تھیں۔ اس طرح گلی کوچوں اور بازاروں میں پھیلائی جانے والی غیر ضروری گندگی میں بھی بہت حد تک کمی ائی ہے۔ لوگوں کے گھروں پر رہنے کی وجہ سے گاڑیوں نے فضاء میں دھواں دینا چھوڑ دیا ہے، تیل اور گیس کی کھپت میں کمی کی وجہ سے فضاء ساری کی ساری صاف اور شفاف لگ رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور اور کراچی جیسے الودہ ترین شہروں کو بھی الودہ شہروں کی لسٹ کے نکالا گیا ہے۔ برائلرچکن اور گوشت کے استعمال میں کمی اور سبزیوں کے استعمال میں اضافے سے لوگوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں، گوکہ مزدورکار اور دھیاڑی دار طبقے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ کرونا کی وجہ سے ہمارے ماحول کو کافی ریلیکس صورتحال مل چکی ہے جو شاید اس وقت کرونا کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔
کرونا کا جادو پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ساری دنیا کی طاقتیں ایک ان دیکھی وائرس کے سامنے بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے ہو ئے ہیں۔میزائلوں، ایٹمی اسلحہ جات، ہائیڈروجن بموں، بموں کی ماں سے لیکر ڈروں طیاروں تک، اپنے غریب شہریوں کے پیٹ کاٹ کر خود کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ہر سال کھربوں ڈالر دفاع کے نام پر خرچ کرنے والے دنیاوی خداوؤں کی حالت قابل دید ہے۔
فیڈریشن اف امریکن سائنٹسٹس نامی ایک تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا مجموعی طور پر 86000 ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں جن میں رپورٹ کے مطابق اب تک خاطر خواہ کمی کی گئی ہے لیکن کسے معلوم کہ واقعی اس کو کم کردیا گیا ہے یا یہ بھی دنیا کی انکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش ہے۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ ویٹو پاور ایٹمی ممالک میں چین دنیا کا کمزور ترین ایٹمی پاور ہے لیکن چین کے پاس بھی جتنے ایٹمی ہتھیار ہیں وہ پوری دنیا کو دس مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ساری بحث سے ہمارا مطلب دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بتانا نہیں بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ اج کا انسان اپنے ہی فیلو انسان کی تباہی کیلئے نت نئی ایجادات اور تباہ کن اسلحہ کی تیاری میں مصروف ہے لیکن دوسری طرف فطرت کے کمالات کو ہی دیکھئے کہ کس طرح بزعم خود دنیا کے ٹھیکداروں کو ایک ان دیکھی وائرس کے سامنے بے بس کردیا ہے۔ اپکو بھی شاید معلوم ہو کہ امریکہ جیسے ”سُپر پاور” کے پاس بھی اجکل وینٹی لیٹرز کی شدید قلت ہے جو کہ میرے خیال میں انتہائی معیوب اور شرمناک بات ہے۔ جو ملک پوری دنیا کو بغیر پائلٹ کے پانچ ہزار سے زائد ڈرون طیاروں کی مدد سے اپنی زد میں رکھ سکتا ہے کیا وہ وینٹی لیٹرز تک تیار نہیں کر سکتا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے اج کے انسان کو سوچنے پر مجبور کیا ہواہے۔ فطرت کی طاقت کا اندازہ تو لگائیے کہ پوری دنیا میں کوئی جنگ و جدل کی بات ہی نہیں کر رہا بلکہ ہر ایک ملک اپنے شہریوں کو گھروں پر رہنے کے مشورے دینے میں مصروف ہیں۔ اج کل دنیا کے ہر ایک ملک کے سامنے ایٹمی ہتھیاروں، خطرناک اسلحہ جات اور تیز ترین جنگی جہازوں کی ضرورت نہیں بلکہ کپڑے کے بنے ہو ئے پانچ روپے کے ماسکس، سو پچاس روپے کے سینیٹائزرز اور چند ہزار روپوں کے وینٹی لیٹرز ہی دنیا کے سبھی ممالک میں اولین ضروریات بنے ہو ئے ہیں۔ شاید کرونا کی وجہ سے فطرت ہمیں سوچنے کا موقع دے رہا ہے کہ اہم اپنی خود ساختہ فرعونیت سے ذرا نیچے اجائیں اور انسانیت کیلئے کوئی مثبت سوچ پیدا کریں تاکہ یہ دنیا امن او اشتی کا مرکز بن سکے اور فطرت یہی تو چاہتا ہے۔ فطرت کے اسی ہدایت پر اگر عمل کیا جائے تو شاید ہم حقیقی معنوں میں اپنی اس دنیا میں جی سکنے کے قابل ہو سکے گے۔ دنیا کو چلانے والے لیڈروں کو سوچنے کیلئے کرونا میں کافی مواد ہے اگر سوچے تو!!!
“فطرت بمقابلہ انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسان داوڑ” ایک تبصرہ