پی ٹی ایم ۔۔ منظور پشتین ۔۔ محسن داوڑ۔۔ اور سیاسی پارٹی کا قیام ۔۔۔۔ خصوصی تحریر: رسول داوڑ

سننے میں آرہا ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے بعد دوسرے نمبر پر ان کے بڑے لیڈر رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سیاسی پارٹی بناکر پی ٹی ایم سے عملاً راہیں جدا کرنے جارہے ہیں، البتہ یہ کہاجاتا ہے ، کہ وہ پی ٹی ایم کیساتھ اخلاقی سپورٹ جاری رکھیں گے ۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں نئی سیاسی پارٹی میں کیا خاص بات ہوگی ؟ ان کے منشور میں مزاحمت ہوگا یا روایتی سیاست؟ چونکہ کہا گیا تھا کہ پی ٹی ایم عدم تشدد کے زریعے غیر سیاسی مزاحمتی تحریک ہے اور اب تک یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر انتخابات کے دوران پی ٹی ایم کے واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا میں کُھل کر پی ٹی ایم کے اپنے کارکن دو محتلف سوچ کیساتھ دلائل دیتے نظر آتے رہے ۔
پی ٹی ایم میں ایک قسم کے لوگ کشتیاں جلا کر
صمد خان ، باچاخان ، حاجی میرزاعلی خان کے فلسفے پر چل کر پی ٹی ایم تحریک کو غیر سیاسی اور عدم تشدد کے فلسفے کیساتھ دھرنے احتجاج مزاحمت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو خود کو منظور پشتین کے حامی کہتے ہیں انہیں شائد جنوبی وزیرستان کے ایم این اے علی وزیر اور کسی حد تک ایم پی اے میرکلام وزیر جیسے لوگوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے جو مذمت اور مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس سوچ کیساتھ خصوصاً قوم پرست سیاسی جماعتیں اور عموماً دیگر سیاسی پارٹیوں کے لوگ مثلاً اے این پی ، اچکزئی پارٹی ، جے یو آئی کے کارکنان ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی و دیگر کے عام کارکنان عموماً شائد اس لئے بھی انہیں پسند کرتے ہیں کیونکہ انہیں منظور پشتین سے یہ خطرہ نہیں کہ کل یہ انتخابات میں ان کے مد مقابل کھڑے ہونگے۔
پی ٹی ایم میں شمالی وزیرستان کے ایم این اے محسن داوڑ کے سوچ کے حامل لوگ بھی بہت ہے جنہیں بشرہ گوہر، افرسیاب خٹک ، لطیف لالا،سابق امیدوار قومی اسمبلی عبداللہ ننگیال وغیرہ شامل ہیں، جن کی پی ٹی ایم میں جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر اب سوال یہ ہے جب محسن داوڑ سیاسی پارٹی بنا کر الیکشن کمیشن کیساتھ رجسٹرڈ کر لینگے تو کیا پی ٹی ایم کے دیگر کارکنان جن کا تعلق دیگر سیاسی پارٹیوں کیساتھ ہے کیا وہ انہیں سپورٹ کرینگے ؟
سوال یہ بھی ہے کہ پارٹی بنانے سے پی ٹی ایم کیساتھ جُڑے لوگ بظاہر تو دو حصوں میں تقسیم ہوجائینگے جس کا فائدہ ظاہر ہے منظور پشتین کو ہوگا نہ ہی محسن داوڑ کو ۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ منظور پشتین کی طاقت محسن داوڑ ہے اور محسن داوڑ کی طاقت منظور پشتین ہے۔ اب جب پی ٹی ایم سیاسی و غیر سیاسی قوتوں میں تقسیم ہوگا تو مزاحمتی تحریک کس اسٹیج پر کھڑا رہیگا ؟ کافی عرصہ سے سن رہا تھا مگر کھبی اس بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش اس لئیے نہیں کی، انتخابات میں حصہ لینے اور پھر پارلیمانی و غیرپارلیمانی گفتگو کیساتھ میٹنگز میں بلانے اور نہ بلانے کے گلے شکوے بھی سنتا رہا مگر یقین تب ہوا جب بیرون ملک سے ایک دوست نے کہا کہ پارٹی کا نام کیاہے ؟ میں نے پوچھا کونسی پارٹی ؟
بتایا کہ محسن داوڑ کی پارٹی تب یقین ہوا کہ پی ٹی ایم کے آئین میں سیاسی و غیر سیاسی تحریک پر بحث کا نتیجہ بالا آخر نکل رہا ہے ۔ ایک گھر میں بھائی جب بڑے اور بالغ ہوجاتے ہیں ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو گھر میں دیواریں کھڑی کرکے کھانا پینا بھی جدا کردیتے ہیں ۔ باقی تفصیل انشااللہ پارٹی بننے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں