اور ہماری مُنی بھی مر گئی۔۔۔۔۔۔۔احسان داوڑ

روئی کے گالوں کی طرح سفید نرم و ملائم بال ، نشیلی انکھیں اور لاپرواہ قسم کا سٹائل ، لگتا تھا کہ انہیں اپنی حسن کا احساس بھی ہے اور غرور بھی۔ اس لئے تو جب وہ چلتی تھی تو کسی ٹین ایجر حسینہ کی مانند لچکتی مٹکتی اور بل کھاتی تھی گویا کوئی مغربی نازک اندام ریمپ واک کر رہی ہو ۔ جی ہاں میں اپنی پالتو بلی مُنی کی بات کر رہا ہوں ۔
پہلے دن جب ان کو میرے بچے ناصر اسد نے سرگودھا سے لایا تو گویا گھر میں سب کو ایک کھلونا مل گیا ۔ دو تین ماہ تک تو کسی نئی نویلی دلہن کی طرح اپنے مخصوص کمبل میں نازوں سے پڑی رہتی تھی بس کھانے اور پاخانے کیلئے کمرے سے نکلتی تھی ۔ جب کچھ بڑٰی ہوئی تو گھر کے دوسرے کمروں میں بھی تاک جھانک شروع کیا ۔ اور پھر رفتہ رفتہ گویا وہ ہمارے گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گئی ۔ اس کی پیار بھری ادائیں اور معصومیت نے سب کو اس کا گرویدہ بنا لیا ۔ نازک مزاج ایسی کہ جب عید الفطر کیلئے گاؤں جا رہے تھے تو گاڑی میں تنگ اگئی اور جب ائیر کنڈیشنڈ کے سامنے ان کو بٹھائی تو تب قرار ایا ۔ گاؤں میں پہنچے تو سبھی لوگ ان کے حسن کے دیوانے ہوگئے ۔ پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ اس دفعہ استقبال ہمارا نہیں مُنی کا ہورہا ہے ۔ پورے گاؤں کے گھروں میں ان کو لیجایا گیا اور وہیں سے شاید ان کسی ماہر نظر بد کی نظر لگ گئی کیونکہ جب سے ان کو گاؤں سے واپس پشاور لایا گیا تب سے اکثر بیمار رہتی تھی ۔ اللہ بھلا کرے ہمارے ڈاکٹر حفیظ داوڑ کا جس نے ہمیشہ مُنی کا دل سے علاج کیا لیکن گذشتہ تین روز سے مُنی کو شاید سردی لگ گئی تھی یا فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو ئی تھی اور اج مُنی نے ڈاکٹر حفیظ کے کلینیک میں ہم سے رُخصت لئے بنا اپنی انکھیں ہمیشہ کیلئے بند کیں ۔

اب پا لوگ بھی سوچتے ہونگے کہ ایک بلی کیلئے اتنی لمبی چوڑی تمھید کیوں باندھی ، اصل بات یہ ہے کہ اپکے ساتھ گھر میں جو کچھ بھی رہتا ہو اس کے ساتھ ایک قسم کی انسیت پیدا ہوتی ہے چاہے وہ کُتا ہو ، بلی ہو ، کوئی پرندہ ہو یا کوئی حیوان ۔ اس لئے توجب یہ مرتے ہیں تو ہمیں دُکھ تو لازمی ہوتا ہے ہے لیکن اس کی کمی بھی گھر میں محسوس کی جاتی ہے اور ہم شاید ایک عرصے تک مُنی کی کمی محسوس کرینگے کیونکہ وہ ہمارے لئے صرف ایک بلی نہیں بلکہ گھر کے ایک رُکن اور وہ بھی سے سے ہر دلعزیز رُکن بن چکی تھی لیکن اج اس کو پشاور میں دفن کرکے بہت کرب ناک احساسات تھے ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں