خصوصی تحریر: تحریر حسام داوڑ
جون 2014 کو شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فوجی اپریشن کا اعلان کیا گیا اور اعلان کے ساتھ ہی لاکھوں لوگوں نے بے سرو سامانی کی حالت میں ملک کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کی جن میں ہزاروں لوگ متاثرین کیلئے بنائیے گئے بکاخیل ٹی ڈی پیز کیمپ میں منتقل ہو گئے جبکہ بیشتر لوگوں نے کرایے کے گھروں میں رہائش اختیار کی ۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے جوں توں کرکے ذاتی مکانات بھی خرید لئے ۔ اپریشن کا دورانہ مکمل ہوا تو حکومت نے ان علاقوں کے لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کیا جہاں کے علاقے بقول حکومت کلیئر ہو چکے تھے ۔ تحصیل دتہ خل اور غلام خان جیسے افعانستان کے ساتھ متصل سرحدپر آبادعلاقوں کے لوگ افعانستان کے صوبہ خوست ، پکتیکاور پکتیا ہجرت کر گئے جہاں اس وقت کے افاعن حکومت نے انہیں ایک عارضی پناگاہ فراہم کی جس کو گلانو کیمپ کا نام دیا گیا ۔ بعد مں انہیں بھی بکا خل آئی ڈی پز کیمپ میں منتقل کیا گیا جبکہ مرحلہ وار واپسی جاری ہے۔ اب تک پی ڈی ایم اے کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2022 میں 11 ہزار متاثرین خاندانوں کو پاکستان منتقل کیا گیا ہے جبکہ کچھ خاندان اب بھی واپسی کے منتظر ہیں جو افعانستان کے میر ساپر نامی علاقے میں مقیم ہیں ۔ اپریشن ضرب عضب کی بعد کلئر علاقوں ميں مثالی امن قائم تھی ۔ لوگ حوشحال زندگی گزار رہے تھے ۔نہ کسی کو قتل وعارت ونہ کسی کو لوٹ مار کا حوف تھا۔ فاٹا انضمام کے بعد لوگوں کے چہروں پر اور بھی مسرت دیکھائی دینے لگی کہ ایک طرف امن تو دوسری طرف ترقیاتی منصوبے شروع ہو جائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے مثالی امن کا یہ دورانیہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا اور ٹارگٹ کلنگ کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ چل نکلا ۔
فروری 2018 میں ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ رونما ہونے کے بعد یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ٹارگٹ کلنگ کے خلاف یوتھ اف وزیرستان نامی تنظیم نے کئی بار احتجاج کئے اور دھرنے دئے لیکن یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ صرف 2018 مںے کل 20 کے قریب واقعات ہوئے جس میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔2019 ميں ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ 2018 کی بنسبت زیادہ خطرناک تھا جس مں تقریباً 51 واقعات رونما ہوئے ۔ مذکورہ سال میں بھی درجنوں لوگ لقمہ اجل بنےجس میں پولس کے جوان،سیاسی مشران،۔ملکان اور علماء وعیرہ شامل تھے ۔سال2019 ميں ائی ای ڈیز حملے
اور 9 حود کش حملے بھی ہوئے تھے جس میں فوج کے کئی جوان بھی جام شہادت نوش کرگئے تھے ۔سال 2020 میں زرائع کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے 43 واقعات پشت ائے جس میں 45 سے زائد قبائلی ملکان ،عورتیں اور نوجوان جانبحق ہوئے تھے ۔ ٹارگٹ کلرز کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ پاکستان کے سول سروس کے گریڈ 18 کے سرکاری افسر زابید اللہ کو اپنے دو دیگر ساتھیوں سمیت دن دیہاڑے ان کے گاؤں حسوخیل میں ان کے گھر کے قریب ہی فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا اور قاتل بحفاظت فرار ہونے میں بھی حسب معمول کامیاب ہوئے ۔زبیداللہ سرکاری چھٹی پر عدوالفطر منانے ایا تھا بعد مں تحقیقات ت کلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن ان کا بھی ابھی تک پتہ نہں چلا ۔ ایسے واقعات بھی سامنے ائے جن میں چار چار قبائلی عمائدین کو ایک ساتھ ٹارگٹ کردیا گیا ۔ ان تمام واقعات کی ایف ائی آر دفعہ 302 7اے ٹی اے کے تحت نامعلوم ملزمان کے حلاف درج کرائی گئی ہیں لیکن اب تک کسی ایک واقعہ کے قاتل بھی قانون کے شکنجے میں نہیں لائے جا سکے ہیں ۔ اس صورتحال کا شمالی وزیرستان کی نہ صرف سماجی زندگی پر اثر پڑا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی علاقہ بانجھ ہوتا جا رہا ہے اور لوگ اپنے اپنے کاروبار رفتہ رفتہ سیٹل ایریاز کی طرف منتقل کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ علاقے میں غربت اور بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے نشنل ڈیموکریٹک مومنٹ(این ڈی ایم ) کے صوبائی ترجمان جمال داوڑ نے بتایا کہ دہشت گردی کی ٹارگٹ کلنگ والی نوعیت نے نہ صرف سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے بلکہ کاروباری زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے کاروباری حضرات یا تو کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہیں یا ملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہورہے ہیں اور سب سے زیادہ نوجوان طبقہ ٹارگٹ کلنگ کی لہر سے زیادہ متاثر ہوا ہے جبکہ کھیل کھود کی سرگرمیاں ماند پڑ گئے ہیں ۔ اس حوالے سے جب جمال داوڑ سے پوچھا گیا کہ کاایا پولیس امن لانے میں ناکام ہے تو انہوں نے کہا کہ پہلے تو پولسے کے پاس احتیارات ہے نہیں اور اگر احتیارات ہے بھی تو پولیسکے پاس تربیت کی بہت کمی ہے اگر پولسں کے نوجوانوں کو معیاری تربیت دی جائے تو دوران تفتش بہت سے مسائل کو لگام دیا جا سکتا ہے۔سال 2021 گزشتہ سالوں کی نسبت اور بھی خون ریز رہا جن میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات رونما ہوئے اور سیکورٹی فورسزے پر بھی کئی جان لیوا حملے ہوئے تھے ۔غیر ملکی خبررساں ادارے ریڈیو فری یورپ مشال ریڈیو کے مطابق 2021 مں 63 ٹارگٹ کلنگ ہوئے جن میں ستر سے زیادہ مقامی مشران،نوجوان اور سرکاری اہلکار جاں بحق ہوئے تھے تاہم سرکاری ذرائع نے یہ تعداد 60 کے قریب بتائی ہے ۔ اسی سال سب سے زیادہ واقعات تحصیل میرعلی ميں ہوئے تھے جن میں سب سے درد ناک واقعہ 20 فروری 2021کو ہوا تھا جس میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ تعلق رکھنے والی چار خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا جو قریبی ضلع بنوں کی رہائشی تھیں ۔ اسی ہی سال کا دوسرا درد ناک واقعہ ستائیس اگست کو رونما ہوا جس میں یوتھ اف وزیرستان کے صدر حاجی نور اسلام نشانہ بنائے گئے جس کے خلاف مقامی لوگوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کئے اور جلسے منعقد کئے۔اسی طرح سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چالیس ایسے واقعات بھی ہوئے جن ميں کئی فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ سرکاری اعداد شمار کے مطابق درجنوں شدت پسند بھی ہلاک کئے گئے۔ مقامی سیکورٹی ذرائع کے مطابق سال 2020 میں ٹاگیٹیڈ اپریشن میں 95 شدت پسند مارے گئے تھے۔جبکہ 2021 مںا انٹیلیجینس کی بنیاد پر کئے گئے مختلف اپریشنز میں 50 سے زائد شدت پسند مارے گئے تھے ۔ ۔سال 2022 میں 17دسمبر تک ٹارگٹ کلنگ کے47واقعات رونماہوئے ہیں جن ميں تقریباً 63 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔اسی سال ٹارگٹ کلنگ کا سب سے دردناک اور خون ریز واقعہ بیس جون کو ہوا تھا جس میں یوتھ اف وزیرستان کے چار جوانوں کواس وقت نشانہ بنایا گیاجب یہ لوگ میرعلی کے قریبی گاؤں حیدر خیل سے اپنی گاڑی میں واپس جارہے تھے ۔ اس طرح اسی ہی سال 12 جولائی کو جمیعت علمائے اسلام کے دو کارکن قاری سمع۔ الدین اور حافظ نعمان کو اسی ہی انداز میں ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا ۔ تدفین کے بعد اتمانزئی قومی دھرنا بمقام نظامیہ عیدک کلے دیا گیا جو پورے تین مہینے جاری رہا اور مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کیا گیا دھرنے کی نمائندگی ملک ربنواز اور ڈاکٹر گل عالم کر رہے تھے۔ تین مہینے جاری دھرنا کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ميں نمایاں کمی محسوس کی گئی البتہ ایک واقعہ خیدرخیل کلے میں ہوا جس ميں مرسلین نامی شحص کو اس کے گھر کے سامنے قتل کیا گیا تھا ۔ جوان مرسلن کی گولیوں سے چھلنی نعش دیکھ کراس کی ماں کو دل کا دورہ پڑاتھا جس سے وہ بھی چل بسی ۔ 28 ستمبر کو میرعلی ہی میں بھیک مانگنے والی دو خواتین کو نشانہ بنایا گیاجن کا تعلق لکی مروت کے علاقے سے بتایا گیا ۔ نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک موقع پر جاں بحق ہوگئی جبکہ دوسری زخمی ہو گئی ۔اس طرح میرعلی کے مین بازار میں ایک پھیری والے کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔29 نومبرکو ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے تین جیولرز کو میرعلی بازار میں رات کے 12 بجے ایک دُکان سے نکال کر قتل کر دئے گئے ۔ تینوں کے قتل کے حلاف بنوں میں احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا جو ایک ہفتہ بعد حتم کیا گیا ۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے اور وقتاً فوقتاً لوگوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا جاتا رہا ہے ۔
اس حوالے سے علاقے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جب شمالی وزیرستان کے وزیر اور داوڑ قبیلوں کا ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے خلاف مشترکہ دھرنا جاری تھا تو اس دوران ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تھم چکا اور کوئی واقعہ سامنے نہیں ایا لیکن جوں ہی دھرنے کو ختم کردیا گیا تو ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر چل پڑا جس سے لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوالات کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے مثال کے طور پر ٹارگٹ کلنگ میں کون لوگ ملوث ہیں اور کن لوگوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ؟
یہ کہ ٹارگٹ کلرز کا ہدف کیا ہے اور وہ ٹارگٹ کلنگ سے کس قسم کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
ان لوگوں کو اسلحہ کہاں سے ملتا ہے اور کیا حکومتی ادارے ان ٹارگٹ کلرز کے پکڑنے میں واقعی بے بس ہیں ؟
یہ اور ان جیسے دیگر سوالات عام لوگوں کے ذہنوں میں ایک عرصے سے مچل رہےہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان سوالات کا جواب کسی عام ادمی کے پاس تو ہے نہیں البتہ حکومت اگر واقعی امن و امان کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہے تو نہ صرف عوام کو اعتماد میں لیکر ایسی پالیسیاں بنانی ہونگی جن میں کسی مجرم کو پہلے تو جرم کی جرات نہ ہو اور اگر بالفرض محال جرم سرزد بھی ہوجائے تو مجرم کو قانون کےکٹہرے میں لا کر کھڑا کردیا جا ئے تاکہ عوام کو اپنے اداروں پر متزلزل اعتماد بحال ہو جائے اور اس طرح نہ صرف علاقے میں امن وامان قائم ہو جائے گا بلکہ سماجی و معاشی سرگرمیوں کا احیاء بھی ممکن ہو سکے گا ۔