چین کا تہذیبی عزم: قومی ورژن ہال اور صدر شی جن پنگ کی ثقافتی بصیرت


تحریر: دی خیبر ٹائمز اسپیشل فیچر

بیجنگ کے دامن میں واقع یان شان کی سرسبز پہاڑیوں کے نیچے، ایک شاندار اور باوقار عمارت کا منظر نامہ، چین کے تہذیبی تسلسل اور فکری گہرائی کا گواہ ہے۔ یہ عمارت کوئی عام میوزیم یا لائبریری نہیں بلکہ قومی ورژن ہال (China National Archives of Publications and Culture) ہے — وہ مرکز جہاں چین نے اپنی تاریخ، تہذیب اور قومی شناخت کو محفوظ رکھنے کا عہد کیا ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں یکم جون 2023 کو صدر شی جن پنگ خود تشریف لائے، تاریخی نسخوں اور نادر کتابوں کو بغور دیکھا اور کہا:

“مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ چینی تہذیب نے زمانے کی سختیوں کے باوجود جو سب سے قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں، انہیں محفوظ رکھا جائے۔”

یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی اعلان ہے۔

چین: طاقت اور تہذیب کا امتزاج

آج دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس عسکری طاقت ہے، کچھ کے پاس اقتصادی غلبہ، اور کچھ علم و ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ مگر چین وہ واحد ملک ہے جو ان سب کو ایک ہم آہنگ تہذیبی بنیاد پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے جس طرح اپنی صدیوں پرانی ثقافت کو نئی نسل سے جوڑا ہے، وہ دنیا میں کسی اور ملک کے لیے آسان نہیں رہا۔

امریکہ کو طاقتور سمجھا جاتا ہے — اور بلا شبہ اس کی عسکری اور مالی قوت ناقابلِ تردید ہے — لیکن چین کی طاقت محض فوج یا معیشت میں نہیں، بلکہ اپنے ثقافتی ورثے کی بقا، تسلسل اور خود اعتمادی میں ہے۔

تاریخ کی حفاظت: عملی اقدامات

صدر شی جن پنگ نے ژینگڈنگ میں آثارِ قدیمہ کو بچانے کے لیے ذاتی دلچسپی لی، فوژو کے تاریخی محلے “سانفانگ چی شیانگ” اور وان شو یان کے قدیم غاروں کو محفوظ رکھا، اور پھر “چینی مصوری کی مکمل تاریخ” پر کام شروع کروایا۔ یہ تمام منصوبے صرف فن یا ادب نہیں بلکہ چینی شناخت کے معمار ہیں۔

چین کی باہمی قوم: تہذیب میں وحدت

چین میں درجنوں نسلی گروہ اور سینکڑوں بولیاں ہیں، مگر ریاست نے جس طرح ثقافت کو یکجہتی کی بنیاد بنایا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔ قومی ورژن ہال میں نہ صرف ہان چینی ورثہ بلکہ تبّت، منگول، ایغور اور دیگر اقوام کی تاریخی کتب، نسخے، اور فنون بھی محفوظ کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہی پیغام ہے جو پاکستان جیسے کثیر القومی اور کثیر اللسانی ملک کے لیے بھی سبق آموز ہو سکتا ہے۔

کیا امریکہ واقعی پیچھے رہ گیا ہے؟

یہ سوال اب کھل کر پوچھا جا رہا ہے: کیا امریکہ صرف طاقت ہے، مگر تہذیب نہیں؟
جب امریکہ کی یونیورسٹیاں ثقافت سے منہ موڑتی ہیں، نصاب سے تاریخ نکالی جاتی ہے، اور تہذیبی شناخت کو مشکوک کیا جاتا ہے، تب ایک سوال ابھرتا ہے — کیا طاقتور ہونے سے قوم مہذب بھی بن جاتی ہے؟

چین نے شاید اس سوال کا جواب اپنی عملی مثال سے دے دیا ہے۔


ایک تہذیب، ایک وژن، ایک مستقبل

چین کا قومی ورژن ہال صرف ایک ادارہ نہیں، قوم کی روح کا مظہر ہے۔ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے دنیا کو یاد دلایا کہ ترقی وہی دیرپا ہے جو اپنے ماضی سے جڑی ہو۔ دنیا جس “نئی عالمی قیادت” کو تلاش کر رہی ہے، شاید وہ قیادت واشنگٹن سے نہیں بلکہ بیجنگ سے ابھر رہی ہے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں