تحریر: عقیل یوسفزئی
ہماری اولاد ہمارے لئے خدا کی ایک بڑی نعمت اور قدرت کے عظیم تحفے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہم اپنے خاندانی نظام کو آگے بڑھاتے ہیں اور نسلوں کی تسلسل کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ یہ بحیثیت والدین ہر کسی کو ایک ایسا حسین اور ناقابل بیان تسکین اور تحفظ بھی دیتی ہے جس کا محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے ۔ اولاد کو جنم دینے کا تخلیقی عمل ایک ماں کا وہ منفرد اعزاز سمجھا جاتا ہے جو کہ باپ یا مرد کے حصے میں نہیں آتا اگر چہ اس عظیم عمل اور تجربے میں دونوں کا اپنا اپنا حصہ اور کردار ہوتا ہے ۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جس نے دنیا میں آنا ہوتا ہے وہ آکر رہتا ہے تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ والدین کی ذمہ داری اس تمام پراسیس میں بنیادی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے اور بچوں کی بہتر تربیت والدین کی وہ ذمہ داری ہے جس کی بنیاد پر کسی خاندان ، علاقے اور سماج کی مضبوط عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ آج والدین کی اکثریت اپنی اولاد کی تربیت پر درکار توجہ نہیں دیتی اور ان کی زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو مستقبل میں ایک مروجہ کامیاب انسان بناکر پیسہ اور طاقت بنانے کی مشین کس طرح بناسکتے ہیں ۔ اس کوشش میں ان کی تمام توجہ اس طرف مرکوز رہتی ہے کہ بچوں کو کچھ بھی کرکے کسی ایسے تعلیمی ادارے سے ڈگریاں دلوائی جائیں جس کی بنیاد پر وہ ” کماؤ پتر ” بن کر والدین اور خاندان کا نام ” روشن ” کریں ۔ اس دوڑ اور خواہش نے اب ایک باقاعدہ فیشن کی شکل اختیار کرلی ہے اور کوئی اس دوڑ میں اس بات کا ادراک بھی نہیں کررہا کہ ہم ایک مشین نما بچے کو متعارف کرا کر ایک ناراض اور ابنارمل قسم کی نسل کو پروان چڑھانے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے دوران ہم نے اپنے معصوم بچوں سے نہ صرف ان کا بچپن چھین لیا ہے بلکہ ہم اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کے بعد ان کو محض ان کی قابلیت کی ترازو میں تولنے والے دکاندار بن کر رہ گئے ہیں ۔ رہی سہی کسر ہمارے نام نہاد تعلیمی ادارے پوری کرر ہے ہیں جو کہ عملاً قصاب خانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور اکثر اداروں میں نہ صرف یہ کہ بنیادی تربیت کا کوئی تصور موجود نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اخلاقیات سے متعلق واقعات اور شکایات کا اب نوٹس بھی نہیں لیا جاتا ۔ ایک مروجہ کامیاب نسل کی تشکیل میں شاید کہ ہم کامیاب ہو جائیں مگر ہم یہ سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں کہ ہم ڈپریشن سے دوچار جس ناراض نسل کو پروان چڑھانے کی راہ پر گامزن ہیں اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔ برآمد ہونا تو شروع بھی ہوگئے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے یا دولت کمانے کے شوق یا مرض میں اتنے مصروف عمل ہوگئے ہیں کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا ۔
نام و نہاد جدیدیت کے دوران ہم نے اپنی نئی نسل کو اپنی توجہ کی بجائے انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جس کے نتیجے میں یہ بچے ایک ہیجان انگیز ذہنی انتشار کے مرض اور عادت سے دوچار ہوگئے ہیں اور والدین ، ریاست سمیت کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہم کس کھاتے میں کس کھائی میں اپنی نئی نسل کو پھینکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔
اس تمام صورتحال ہی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں جرایم بڑھتے جارہے ہیں اور ان جرایم کے دوران 50 فی صد سے زیادہ وہ نوجوان ملوث پائے جاتے ہیں جن کی عمریں 16 سے 25 برسوں کے درمیان ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین ، تعلیمی ادارے ، ریاست اور سماج اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیکر اپنی نئی نسل کو تباہی سے بچانے کا اجتماعی رویہ اختیار کریں اور ان کےمستقبل کے علاوہ سماج کے مستقبل کی فکر بھی کریں ورنہ جس راستے پر ہم نکل پڑے ہیں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔
دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے معاشرے اور ملک کو بڑھتی ہوئی آبادی کا درپیش ہے ۔ اس جانب ایک زمانے میں فیملی پلاننگ اور دیگر اقدامات کے ذریعے بہت توجہ دی جاتی تھی مگر اب اس مسئلے پر قابو پانے کا کوئی موثر طریقہ کار نظر نہیں آرہا ۔ پشتون سوسائٹی میں زیادہ بچوں کی شرح دوسرے معاشروں کے برعکس بڑھتی جارہی ہے اور تعلیم یافتہ حلقے بھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی نہیں دیتے جس کی ضرورت ہے ۔ اس وجہ سے جہاں ایک طرف والدین اپنے بچوں کی درکار نگہداشت نہیں کرپارہے وہاں سماجی اور انتظامی معاملات میں حکومت کوئی موثر پلاننگ بھی نہیں کرسکتی اور نہ ہی روزگار یا تعلیم کے تقاضے پورے ہوتے ہیں ۔ تمام تر کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود ہر برس لاکھوں اسٹوڈنٹس تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لیکر فارغ التحصیل ہوتے ہیں تاہم روزگار کے مواقع اس کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں اور اگر چند سو ملازمتیں مل بھی جاتی ہیں تو اس پراسیس کے دوران یا تو میرٹ کی پامالی آڑے آجاتی ہے یا کرپشن اور سفارش پر انحصار کرنے سے اہل نوجوان ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ نئی نسل میں ایک گریڈ ڈپریشن کی صورت میں نکل آتا ہے اور اس ڈپریشن نے پورے معاشرے کو گزشتہ چند برسوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ شدت پسندی ، جرایم اور عدم برداشت میں ہونے والے خوفناک اضافے کو بھی ماہرین اس تناظر میں دیکھتے آرہے ہیں تاہم ابادی پر کنٹرول وقت کی وہ ضرورت ہے جس کے لیے معاشرے اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی کے ساتھ مشترکہ کوششوں کے ذریعے نمٹنا ہوگا ۔
بشکریہ: روزنامہ آئین پشاور