صرف ڈاکٹرز یا متعلقہ ماہرین صحت ہی جانتے ھیں کہ کورونا وائرس( COVID-19) کس قدر خطرناک ھے اگر یہ مرض انتہائی خطرناک نہ ھوتا تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈاکٹرز ، نرسز، اور ھسپتالوں کا عملہ نہ مرتے- صرف پاکستان میں اایک درجن سے زائد ڈاکٹرز کورونا کے باعث ہلاک ھو چکے ھیں- آج تک 700 ڈاکٹرز ،نرسیں اور عملے کے دیگر اراکین وائرس کا شکار بن چکے ھیں اور یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے اگر یہ معمولی بیماری ھوتی تو ڈاکٹرز خود کو اس سے بچا لیتے- جب ڈاکٹرز کورونا سے مر رہے ھیں تو پھر پاکستانی قوم کو دوسرا کیا ثبوت چاھئیے کہ کورونا مرض خطرناک ھے, جان لیوا ھے… ؟
پاکستان میں COVID-19 کے لاکھوں مریض ھو سکتے ھیں لیکن ھمیں ان کی تعداد اس لیئے نہیں معلوم کیونکہ ھم کافی تعداد میں ٹسٹ نہیں کر پا رہے- اس وقت جب میں یہ لائنیں لکھ رہا ھوں 1483 افراد ھلاک ھو چکے ھیں مگر یہ وہ لوگ ھیں جو ھسپتالوں میں مرے اور ھمیں انکا پتہ چلا- ممکن ھے کورونا وائرس سے ایسے لوگ بھی جان بحق ھوئے ھوں جن کے ٹسٹ نہیں ھوئے یا انکے لواحقین نے انکی موت کے بارے اطلاع نہ دی ھو-
صورتحال بہت گھمبیر ھے، موت کا رقص شروع ھو چکا ھے، یہ جاری ھے اور بڑھتا رہے گا ا گر ھم کبوتر کی طرح انکھیں بند کیئےرھے- بعض عناصر جو ہمارے مذہب کا نام بھی استعمال کررہے ہیں انہوں نے کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی اقدامات کے خلاف باقائدہ مہم شروع کر رکھی ھے- بعض سیاستدانوں کا روئیہ بھی غیر زمہ دارانہ ھے- وزیراعظم عمران خان بھی قوم سے اپنے خطاب میں کورونا وائرس کو معمولی زکام قرار دیتے رھے ھیں ، عمران خان عوام میں مقبول ھیں ان کے پرستار انکی ہر بات کو انکھ بند کرکے قبول کر لیتے ھیں جب وہ یہ کہیں گے کہ کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں, لاک ڈاون غلط اور یہ اشرافیہ نے کرایا تو اس سے لوگوں کے زھنوں میں شکوک و شبہات پیدا ھونگے، وہ کنفیوزڈ ھونگے اوراس خطرناک بیماری کو سنجیدہ نہیں لینگے-
رہی سہی کسر سپریم کورٹ کے اس حکم نے پوری کردی جسکے تحت بازار اور مارکیٹیں کھول دی گئیں- ھم نے ڈاکٹرز کی وارننگ کو مسترد کیا،عالمی صحت کے ادارے کی گائیڈ لائن کو نہیں مانا دوسرے ممالک میں ھونے والی تباہی سے کوئی سبق نہیں سیکھا-
گذشتہ دھائی ماہ سے میں گھر تک محدود ھوں صرف ناگزیر صورت میں باہر جانا ھوتا ھے،ایسے میں حفاظتی دستانے، چشمے اور ماسک استعمال کرتا ھوں لیکن باہر لوگ حیرت سے دیکھتے ھیں انکی انکھوں اور چہروں پر تمسخر کے اثار ھوتے ھیں- گذشتہ ھفتے میرے ایک جاننے والے جو تبلیغی جماعت کے رکن ھیں ایک بڑی دکان کے باہر ملے اور انہوں نے مجھے میرے چہرے موجود ماسک اتا رنے کا مشورہ دیا- وہ ڈاکٹرز کو برا بھلا کہہ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ھمارا خدا پر ایمان باقی نہیں رہا، میں نے انکی بات کا اس لیئے برا نہیں منایا کیونکہ انہوں نے وہی کیا جو ا نہیں بتایا گیا تھا- لوگ خاص کرکے مذھبی لوگ مساجد کے پیش اماموں کی بات غور سے سنتے ھیں اگرکوئی امام کہیں گے کہ COVID-19 خطرناک نہیں ہے تو لوگ ڈاکٹروں کی بجائے ان کی رائے سنیں گے-
ھم افواہوں, غیر مصدقہ اطلاعات اور سازشی نظریات پر یقین کررہے ھیں جس کا نتیجہ سامنے ارہا ھے لیکن لوگوں کی بڑی کی تعداد اب بھی انکھیں کھولنے کو تیار نہیں،عید پر ھم نے جو تماشے لگائے انکے اثرات اموات کی شکل میں نمودار ہو رہےھیں لیکن اس کے باجود لوگ بڑی تعداد میں بغیر حفاظتی اقدامات کے باہر گھوم رہی ھے- لوگ گلے مل رہے ھیں ھاتھ ملا رہے ھیں اور ہر وہ حرکت کررہے ھیں جس سے وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کے لئے خطرے کا باعث بنیں-
میں سوچ رہا ھوں کہ جب معاملات ھاتھ سے نکل جائینگے ھسپتالوں میں جگہ نہیں ھوگی اور ھم اپنے پیاروں کو دفن ھوتا دیکھ دیکھ کر رو رہے ھونگے تب شائد ھمیں ہوش ائے اور ھماری انکھیں کھلیں مگر اسوقت ھمرا رونا دھونا اور پچھتاوے سے ھاتھ ملنا کام نہیں ائیگا- ھم اج بھی سنبھل سکتے ھیں- مکمل۔لاک ڈاون تو اب ممکن نہیں رہا اور پاکستان جیسے ملک میں ہے بھی بہت مشکل مگر احتیاط تو کی جاسکتی ھے، ماسک تو پہنا جاسکتا ھے, جسمانی میل جول میں دوسروں سے فاصلہ رکھا جاسکتا ھے- کوشش ھونی چاھئیے کہ خود مریں نہ دوسروں کو ماریں, یہ خودکشی ھے اور خودکشی حرام ھے-
“مزید لاپرواہی کا نتیجہ موت کا رقص … شیراز پراچہ” ایک تبصرہ