افغانستان میں طالبان کا عدالتی نظام، عوامی سزائیں، اور عبوری حکومت کو درپیش چیلنجز

حالیہ عوامی سزائیں اور ان کا پس منظر

اپریل 2025 میں افغانستان کی سپریم کورٹ کے مطابق چار افراد کو مختلف صوبوں میں عوام کے سامنے پھانسی دی گئی۔ یہ طالبان کے موجودہ دور میں ایک دن میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ سزائیں “قصاص” کے قانون کے تحت نافذ کی گئیں، جس میں مقتولین کے ورثا کو معاف یا بدلہ لینے کا اختیار دیا جاتا ہے۔

طالبان کی پہلی حکومت (1996-2001) کے دوران بھی اسی نوعیت کی عوامی سزائیں کھیل کے میدانوں میں دی جاتی تھیں، جسے دنیا بھر سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر دنیا کو 1990 کی دہائی کے مظالم یاد دلا دیے ہیں۔

طالبان کے دور میں نافذ کردہ دیگر سزائیں

طالبان کی واپسی کے بعد متعدد بار سرعام کوڑے مارنے کے واقعات سامنے آئے، جنہیں جرائم جیسے زنا، چوری، اور شراب نوشی پر نافذ کیا گیا۔ نومبر 2024 میں ایک شخص کو عوام کے سامنے تین گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، اس واقعے میں طالبان قیادت بھی شریک تھی۔

خواتین کی تعلیم پر پابندی

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے متنازع فیصلہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ 6 ویں جماعت سے اوپر کی طالبات کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ یونیورسٹیز میں خواتین کی تعلیم بھی معطل کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے نہ صرف افغان خواتین میں مایوسی پھیلی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی سخت ردعمل آیا ہے۔

بگرام ایئربیس اور امریکا کی واپسی

2021 میں امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں، اور بگرام ائیربیس جیسے اسٹریٹجک مراکز کو خالی کیا۔ طالبان کی واپسی کے بعد وہاں سے قیدیوں کو رہا کیا گیا، جن میں داعش اور القاعدہ سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔ یہ عمل افغانستان میں سیکیورٹی کے نئے خدشات کو جنم دینے والا تھا۔

طالبان حکومت کو درپیش چیلنجز اور ان کی علامات

1. بین الاقوامی تنہائی
طالبان کو اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے نے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی برادری نے ان پر معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔

2. انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
خواتین کی تعلیم، آزادی اظہار، اقلیتوں کے حقوق اور عوامی سزائیں وہ نکات ہیں جن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

3. معاشی بحران
بین الاقوامی امداد کی معطلی، فنڈز کے منجمد ہونے اور داخلی تجارت میں رکاوٹوں نے افغانستان کو شدید معاشی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ بے روزگاری، افراط زر اور غربت عروج پر ہے۔

4. قومی وحدت کا فقدان
طالبان حکومت میں دیگر نسلی اور سیاسی گروہوں کو نمائندگی حاصل نہیں، جس کی وجہ سے افغانستان کے مختلف حصوں میں عدم اطمینان اور مزاحمت موجود ہے۔

5. شدت پسند گروہوں کی موجودگی
داعش (خراسان گروپ) افغانستان میں حملے کر رہا ہے۔ طالبان کی حکومت میں بھی یہ گروہ ان کے لیے خطرہ ہیں۔

6. پریس اور میڈیا پر قدغن
میڈیا پر شدید سنسرشپ عائد ہے، صحافیوں کو گرفتار یا ہراساں کیا جا رہا ہے، جس سے آزادی صحافت متاثر ہوئی ہے۔

طالبان کی حکومت نے ایک مرتبہ پھر پرانے دور کی سخت پالیسیوں کو اپنا لیا ہے، جس کے باعث افغانستان ایک بار پھر عالمی تنہائی، داخلی بحران، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی بے چینی کا شکار ہے۔ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ عبوری حکومت نہ صرف عالمی سطح پر مزید دباؤ میں آئے گی بلکہ داخلی سطح پر بھی اس کی ساکھ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں