کھیل کے نام پر “کھیل”: پشاور میں سپورٹس جرنلزم کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ کا انکشاف
تحقیقی رپورٹ: مسرت اللہ جان
پشاور — خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور، جو کبھی کھیلوں کا مرکز اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے افسوسناک اور شرمناک دھندے کی آماجگاہ بن چکا ہے، جہاں کھیل کا نام صرف پردہ بن چکا ہے اور پردے کے پیچھے انسانی اسمگلنگ کی ایک منظم اور مضبوط انڈسٹری پروان چڑھ چکی ہے۔
25 سال پرانی مگر آج بھی فعال “سپورٹس امیگریشن انڈسٹری”
ذرائع کے مطابق اس نیٹ ورک کی جڑیں 25 سال قبل اس وقت پھیلنا شروع ہوئیں جب بعض بااثر صحافی کھیلوں کی ٹیموں کے ساتھ بیرون ملک جانے لگے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے خود ٹیموں کے ساتھ جا کر ویزہ حاصل کرنا شروع کیا اور بعد ازاں اسی راستے کو دوسروں کے لیے بھی کھول دیا — لیکن قیمت کے ساتھ۔ انہوں نے نام نہاد فنڈز، جعلی کوریج اسائنمنٹس، صحافتی لیٹرز، اور فرضی میگزینز کے ذریعے “صحافی” یا “کھلاڑی” بنا کر درجنوں افراد کو بیرون ملک بھجوایا۔
صحافی، کوچ، کھلاڑی — سب فرضی کردار
پشاور کے مختلف اخبارات سے وابستہ افراد آج یورپ، امریکہ اور جاپان میں “صحافت” کے بجائے ہوٹلوں میں صفائی، ٹیکسی ڈرائیونگ، یا شاپنگ مالز میں سیلز مین بن کر کام کر رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی میدان میں قدم بھی نہیں رکھا، اور نہ ہی کوئی سپورٹس رپورٹ لکھی۔ ایسے کیسز بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں نیٹ کیفے چلانے والے افراد کو “سپورٹس رپورٹر” یا “کوچ” بنا کر بھیجا گیا۔
خاندانی ادارے: ایک ہی خاندان کے افراد ایک ہی میگزین کے “ادارتی بورڈ” میں
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کئی جعلی میگزین، جنہیں برسوں سے شائع نہیں کیا گیا، اب بھی حوالہ جات کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ ان میگزینز میں اکثر ایک ہی خاندان کے افراد مختلف عہدوں پر فائز دکھائے گئے ہیں — باپ ایڈیٹر، بیٹا رپورٹر، بیٹی آن لائن گروپ ایڈیٹر۔ یہ سارا دھندا باقاعدہ پلاننگ اور تعلقات کے ذریعے سرکاری اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیا جاتا ہے۔
قومی سلامتی کا مسئلہ، نہ صرف صحافتی یا اخلاقی سوال
یہ معاملہ اب محض اخلاقی یا صحافتی نہیں رہا بلکہ قومی سلامتی کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جب پشاور جیسے بڑے شہر سے مسلسل افراد کھیلوں کے نام پر بیرون ملک جا کر “غائب” ہو رہے ہوں، تو یہ صرف ایف آئی اے یا امیگریشن حکام کے لیے نہیں، بلکہ حکومتِ خیبر پختونخوا، وزارتِ داخلہ، اور انٹیلیجنس اداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
حکومت سے مطالبہ: جعلی صحافیوں اور تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے
یہ رپورٹ حکومت سے بھرپور مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر جعلی سپورٹس جرنلسٹس، فرضی تنظیموں، اور غیر رجسٹرڈ میگزینز کی مکمل چھان بین کی جائے۔ ایف آئی اے اور امیگریشن حکام کو اس ضمن میں سخت اور شفاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ایسے افراد جو انسانی اسمگلنگ کو فروغ دے رہے ہیں، ان پر مقدمات قائم کیے جائیں اور انہیں سرکاری اداروں یا پریس کلبز میں نمائندگی سے فوری طور پر محروم کیا جائے۔
نتیجہ: کھیل کو بدنام نہ ہونے دیں — سچ بولنے والے صحافیوں کو تحفظ دیں
سپورٹس صحافت کا شعبہ، جو نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہوا کرتا تھا، آج دھوکہ دہی، جعلسازی اور اسمگلنگ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو یہ ناسور دیگر شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اب وقت ہے کہ اصل اور فرضی کے فرق کو پہچانا جائے، اور “کھیل” کے نام پر ہونے والے اس گھناؤنے کھیل کو روکا جائے۔