میا خان کی بے مثال قربانی: بیٹیوں کی تعلیم کے لیے روزانہ 24 کلومیٹر کا سفر

پکتیکا، افغانستان (دی خیبر ٹائمز رپورٹ): افغانستان کے دور افتادہ اور قدامت پسند علاقے شارنہ، پکتیکا سے تعلق رکھنے والے میا خان ایک ایسے والد ہیں جن کی کہانی نہ صرف دلوں کو چھو لینے والی ہے بلکہ ہزاروں والدین کے لیے ایک مثال بھی ہے۔

میا خان، جنہیں خود زندگی میں کبھی اسکول جانے کا موقع نہ مل سکا، محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی آمدنی محدود ہے، روزانہ کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، اور دل کی بیماری کے سبب صحت بھی ہمیشہ ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود، وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے لیے جو عزم اور قربانی دیتے ہیں، وہ بے مثال ہے۔

12 کلومیٹر کا روزانہ سفر، صرف تعلیم کی خاطر

ہر صبح، میا خان اپنے گاؤں شارنہ سے اپنی تین بیٹیوں کو لے کر نورانیہ اسکول فار گرلز کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جو ان کے گاؤں سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ زیادہ تر وہ اپنی پرانی، خستہ حال موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہیں، مگر جب ایندھن میسر نہ ہو یا دل کی بیماری شدت اختیار کرے، تو وہ یہ سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ دن بھر کا یہ سفر 24 کلومیٹر بنتا ہے، جو کہ افغانستان کی گرمی، گرد آلود راستوں اور سرد ہواؤں میں ایک کٹھن امتحان سے کم نہیں۔

یہ سفر صرف بچیوں کو اسکول چھوڑنے تک محدود نہیں۔ میا خان روزانہ اسکول کے باہر 4 سے 5 گھنٹے انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کی بیٹیاں محفوظ رہیں اور کسی خطرے کا شکار نہ ہوں۔ ان کے مطابق، “اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹیوں کا خواب ادھورا رہ جائے۔”

باپ کا سایہ، تحفظ اور امید کی علامت

پکتیکا جیسے علاقے میں جہاں غیر یقینی صورتحال، سیکیورٹی خدشات اور سخت روایتی بندشیں لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہیں، میا خان اپنی موجودگی سے نہ صرف بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنی برادری کے لیے ایک مثبت پیغام بھی دیتے ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں—جو 2019 میں بالترتیب 8، 10 اور 12 سال کی تھیں—نورانیہ اسکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں، اور ان کے والد کا خواب ہے کہ وہ زندگی میں کچھ بنیں۔

میں اپنی بیٹیوں کو وہ سب دینا چاہتا ہوں، جو مجھے کبھی نہیں ملا

یہ الفاظ میا خان نے سویڈش کمیٹی فار افغانستان کو دیے گئے انٹرویو میں کہے، جو اس اسکول کو چلاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے:

“میں ان کے لیے وہ دروازے کھولنا چاہتا ہوں، جو میرے لیے کبھی نہیں کھلے۔”

میا خان کی کہانی صرف ایک والد کی قربانی کی داستان نہیں، بلکہ یہ اس معاشرے میں خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد، عزم اور باپ کی محبت کی ایک خاموش مگر گونجتی آواز ہے۔

یہ کہانی ہر اس والد کے لیے روشنی کا چراغ ہے جو اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے لیے حالات سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

رپورٹ: دی خیبر ٹائمز نیوز ڈیسک
📍 مقام: شارنہ، پکتیکا، افغانستان

اپنا تبصرہ بھیجیں