دی خیبرٹائمز خصوصی تحریر
کسی فنکار کی کامیابی کا پیمانہ محض ایوارڈز یا شہرت نہیں ہوتا، بلکہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب عوامی محبت بے ساختہ روپ دھارتی ہے۔ مارینہ خان، پاکستانی ٹیلی ویژن انڈسٹری کا وہ معتبر نام ہے جس نے اپنی اداکاری، وقار اور عاجزی کے امتزاج سے چار دہائیوں تک ناظرین کے دلوں پر حکومت کی۔ ان کے کیریئر کا ایک ایسا ہی ناقابلِ فراموش لمحہ 1985 کے شارجہ کرکٹ میچ میں پیش آیا، جب ان کی کار کو پرستاروں کے ہجوم نے گھیر لیا ، ایک لمحہ جو ان کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت بن گیا۔
ابتدائی زندگی: پشاور سے ٹانک، اور پھر سکرین تک
مارینہ خان 26 دسمبر 1962 کو پشاور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریحمت خان پاک فضائیہ میں خدمات انجام دیتے تھے، جس کے باعث خاندان کو ہر چند سال بعد نئی جگہ منتقل ہونا پڑتا۔ بچپن میں کبھی مستقل دوست نہ بن سکے، لیکن مشاہدے کی گہرائی نے ان کی شخصیت میں ایک خاص وقار پیدا کیا۔
ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع ٹانک کے نواب قطب الدین خان کے خاندان سے ہے۔ ان کی والدہ انگریز النسل تھیں اور پشاور میں مستقل سکونت اختیار کر چکی تھیں۔ ثقافتوں کا یہ امتزاج مارینہ کی شخصیت میں ایک نرمی، فہم اور نفاست کا رنگ لے آیا۔
اداکاری کا آغاز: ’تنہائیاں‘ نے مقام بخشا
ٹی وی کی دنیا میں مارینہ خان کا داخلہ 1985 کے شہرہ آفاق ڈرامے ’تنہائیاں‘ سے ہوا۔ اس میں انہوں نے سانیہ احمد کا کردار ادا کیا ، ایک ایسی بہن جس کی حساسیت، مضبوطی اور جذبات ناظرین کو آج بھی یاد ہیں۔
ڈرامہ پس منظر
’تنہائیاں‘ حسینہ معین کا لکھا ہوا اور شہزاد خالد کی ہدایت کاری میں بنا ہوا وہ شاہکار تھا جس نے پاکستانی ڈرامے کو عالمی سطح پر پہچان دی۔ شہناز شیخ، شکیل اور بادامی جیسے کرداروں کے ساتھ، ماریہ کی سادگی اور فطری اداکاری نے شائقین کے دل جیت لیے۔
شارجہ کا یادگار واقعہ جب پرستاروں نے ان کار روک لی
1985 میں ہی، ’تنہائیاں‘ کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ شارجہ میں ایک کرکٹ میچ کے موقع پر مارینہ خان، شہناز شیخ، شکیل اور لیلا زبیری کو مدعو کیا گیا۔ ماریہ خان نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا:
> “ہم جیسے ہی کار میں باہر نکلے، چند لمحوں میں روشنی اندھیرے میں بدل گئی۔ کار ہجوم میں گھر گئی، اور اسی لمحے احساس ہوا کہ ہم ‘اداکار’ سے کہیں بڑھ کر بن چکے ہیں۔ یہ ایک خواب جیسا تجربہ تھا۔”
یہ واقعہ صرف ایک لمحہ نہیں تھا، بلکہ وہ سنگِ میل تھا جہاں مقبولیت نے حقیقت کا روپ دھارا۔
سنہری ڈرامے: ہر کردار ایک شناخت
1987: دھوپ کنارے
ڈاکٹر زویا علی خان ، ایک مہذب، پر اعتماد اور ترقی پسند خاتون۔ ماروی سرمد، راحت کاظمی اور بہروز سبزواری کے ہمراہ مارینہ نے یہاں بھی ثابت کیا کہ وہ ہر کردار میں ڈھل سکتی ہیں۔
2014: جیکسن ہائٹس
ڈائریکٹر مہرین جبار کی اس امریکی-پاکستانی سیریز میں مارینہ نے مشیل کا کردار نبھایا۔ ایک باہمت اور زخم خوردہ عورت جو اپنی پہچان کی جنگ لڑ رہی تھی۔
2018: بندش
ہارر صنف میں قدم رکھتے ہوئے ’مادحہ جنید‘ کا کردار ادا کیا۔ مارینہ نے اس ڈرامے میں خود کو ایک بار پھر نئے رنگ میں پیش کیا ، اور شائقین کو حیران کر دیا۔
ڈائریکشن اور پروڈکشن میں مہارت
مارینہ خان نے صرف اداکاری پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ’مشکل‘، ’دستک‘، اور ’تری میری کہانیاں‘ جیسے پروجیکٹس کی ہدایت کاری میں بھی خود کو منوایا۔
’مشکل‘: ایک جدید طرز کا ڈرامہ جو جذبات اور پیچیدگیوں کا حسین امتزاج تھا
’پسووری‘ (2023): نیو جنریشن کو فوکس کرنے والی اپیسوڈ، جس میں بیانیہ اور وژن متاثر کن تھا
فلمی سفر اور اعزازات
مارینہ نے فلموں میں بھی قدم رکھا اور خوب سراہا گیا:
2018: پرواز ہے جنون ، ثانیہ کی ماں کا متاثر کن کردار
2019: سپر اسٹار – لائلہ خان
2021: کھیل کھیل میں ، مسز حق
2025: لاو گرو ، جلد ریلیز کے لیے تیار
ایوارڈز:
1986: نگار ایوارڈ – بہترین اداکارہ (تنہائیاں)
1987: پی ٹی وی ایوارڈ – دھوپ کنارے
2023: لکس چینج میکر ایوارڈ – میڈیا میں شراکت پر
موجودہ زندگی: اب بھی روشنی کا مینار
آج، 62 سال کی عمر میں بھی مارینہ خان فعال اور مصروف ہیں۔ 2024 میں ‘یحییٰ’ اور 2025 میں ‘دستک’ جیسے ڈرامے ان کی تازہ ترین کامیابیاں ہیں۔ وہ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی خیرسگالی سفیر بھی ہیں، اور نوجوان نسل کے ساتھ متحرک رہتی ہیں۔
فنی سفر، عاجزی اور عوامی محبت کا امتزاج
مارینہ خان کی کہانی صرف شہرت یا کامیابی کی کہانی نہیں، بلکہ عاجزی، وقار، فنی لگن اور ایک ثقافتی ورثے کی کہانی ہے۔ شارجہ کا ہجوم ہو یا ’دھوپ کنارے‘ کی زویا، مارینہ کی ہر جھلک میں سچائی، جذبات اور فن کا نور جھلکتا ہے۔
وہ آج بھی ہمیں سکھاتی ہیں کہ فنکار بننا آسان ہے، مگر یاد رہنا ایک نعمت ہے ، اور مارینہ خان یقیناً ایک ایسی نعمت ہیں، جو پاکستانی ٹی وی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔