خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں بدامنی کا بڑھتا ہوا طوفان: عوامی احتجاج، حکومتی بےحسی اور ناکام فوجی حکمت عملی

خصوصی تحریر: دی خیبر ٹائمز

خیبرپختونخوا اور بالخصوص سابقہ قبائلی اضلاع ایک بار پھر شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔ آئے روز ٹارگٹ کلنگ، اغواء، دھمکی آمیز واقعات اور بم دھماکوں نے نہ صرف امن و امان کو پارہ پارہ کر دیا ہے بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی بھی مفلوج ہو چکی ہے۔ اس سیکیورٹی بحران کے خلاف تمام قبائلی اضلاع میں عوام سراپا احتجاج بن چکے ہیں، مگر افسوس کہ ریاستی ادارے ان احتجاجات کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔

عوامی احتجاج اور حکومتی بےحسی

باجوڑ، مہمند، خیبر، شمالی و جنوبی وزیرستان، کرم اور دیگر قبائلی علاقوں میں عوام نے بارہا سڑکوں پر نکل کر امن کے مطالبے کیے۔ احتجاجی ریلیاں، دھرنے اور پرامن مظاہرے ایک واضح پیغام دے رہے ہیں کہ لوگ بدامنی سے تنگ آ چکے ہیں۔ مگر سرکاری سطح پر نہ کوئی مؤثر ردعمل سامنے آیا ہے، نہ ہی ان مظلوم عوام کے مطالبات پر کوئی سنجیدگی دکھائی گئی ہے۔ حکام کی خاموشی نے عوام میں ریاستی اداروں سے اعتماد کو مزید کمزور کر دیا ہے۔

فوجی آپریشنز: مسائل کا حل یا مزید تباہی؟

2004 سے لے کر آج تک قبائلی اضلاع میں درجنوں بڑے اور چھوٹے فوجی آپریشنز کیے گئے ہیں۔ ان میں آپریشن المیزان، راہِ راست، راہِ نجات، خیبر ون سے خیبر فور اور سب سے نمایاں ضرب عضب اور ردالفساد شامل ہیں۔ ان آپریشنز کا مقصد امن قائم کرنا اور دہشت گردوں کا خاتمہ تھا، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

اپریشن ضرب عضب جیسے بڑے اور مہنگے آپریشن کے باوجود آج بھی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بدامنی کا گراف نیچے نہیں آیا۔ شہریوں کے مطابق ان آپریشنز میں شدت پسندوں کے بجائے عام لوگوں کو نقصان پہنچا، بازار تباہ ہوئے، مکانات مسمار کیے گئے، لاکھوں لوگ بےگھر ہو گئے۔ مگر امن قائم نہ ہو سکا۔

بدامنی کی موجودہ صورتحال

2024 اور 2025 کے ابتدائی مہینوں میں ٹارگٹ کلنگ کے درجنوں واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر باجوڑ، شمالی وزیرستان اور خیبر میں صورتحال بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ شدت پسند تنظیموں کی موجودگی اور سرگرمیاں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں، جبکہ مقامی لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کے باوجود، شدت پسند عناصر نہ صرف منظم انداز میں کاروائیاں کر رہے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کو دھمکیاں دے کر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کر رہے ہیں۔

کیا حل ہے؟

  1. عوامی شمولیت: پائیدار امن صرف اس وقت ممکن ہے جب مقامی لوگوں کو فیصلوں میں شامل کیا جائے، ان کی بات سنی جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے۔
  2. شفاف تحقیق اور احتساب: سابقہ آپریشنز کے نتائج کا غیرجانبدارانہ تجزیہ ہونا چاہیے تاکہ غلطیوں سے سیکھا جا سکے۔
  3. سول اداروں کو مضبوط کرنا: فوجی آپریشنز وقتی حل ہو سکتے ہیں، مگر دیرپا امن کے لیے پولیس، عدلیہ، تعلیمی اداروں اور مقامی حکومتوں کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔
  4. مذاکرات اور سیاسی حل: ریاست کو چاہیے کہ وہ مقامی قبائلی مشران، سیاسی و سماجی نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی حل تلاش کرے۔

قبائلی اضلاع کے عوام دہائی دے رہے ہیں، لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ مسلسل فوجی کارروائیوں، نظراندازی، اور بدامنی کے سائے میں یہ علاقے مزید تنہائی، غربت، اور محرومی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ریاست اب بھی نہ جاگی تو یہ بدامنی نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے ملک کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں