دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ
دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں دانستہ طور پر مالی وسائل کی بندش کی جا رہی ہے، تاکہ فنانشل ایمرجنسی نافذ کرکے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو غیر فعال یا ختم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق یہ ایک منظم سیاسی سازش ہے جس کا مقصد مرکز اور صوبے کے درمیان تصادم کو جنم دینا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ بجٹ اجلاس میں تخفیف زر (کٹوتی کی تحاریک) نہ پیش کریں اور کسی بھی صورت میں بجٹ کی منظوری کے عمل میں حصہ نہ لیں، جب تک یہ مرحلہ چیئرمین عمران خان کی مشاورت سے مشروط نہ ہو۔
علی امین گنڈاپور نے واضح کیا ہے کہ ” اگر نظام ہمیں دفنانے کا ارادہ رکھتا ہے تو پھر پورا صوبہ تیار ہوجائے۔
پھر کسی بھی اسمبلی کا بجٹ پاس نہیں ہوگا۔
وزیر اعلیٰ نے اشارہ دیا کہ اگر اس سازش کو نہ روکا گیا تو صوبائی حکومت غیر معمولی اقدامات اٹھانے پر بھی مجبور ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مرکز کی بے حسی کے باوجود اپنے وسائل سے عوام کو ریلیف دے رہے ہیں، لیکن وفاق کی جانب سے مسلسل مالی بلیک میلنگ سیاسی انتقام کا واضح ثبوت ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مختلف اطراف سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک جانب وفاق اور عدلیہ سے متعلق کشیدگی بڑھ رہی ہے، تو دوسری جانب پارٹی کی اندرونی صفوں میں بھی اختلافات اور سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں میں پارٹی کے بعض اہم رہنماؤں اور سابق اراکین کی جانب سے علی امین گنڈاپور کی قیادت پر تنقید کی گئی ہے۔ ان کے فیصلوں، خاص طور پر مرکز سے ٹکراؤ کی پالیسی اور انتظامی معاملات پر، پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ یہ داخلی دباؤ، وزیر اعلیٰ کی سیاسی گرفت کو کمزور کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں، بجٹ منظوری کو عمران خان کی مشاورت سے مشروط کرنا ایک سیاسی دباؤ کی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے، لیکن آئینی اور پارلیمانی لحاظ سے یہ عمل پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔ اگر اسمبلی میں بجٹ منظور نہ ہو سکا تو فنانشل ایمرجنسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جس کا اثر نہ صرف صوبائی خودمختاری بلکہ جمہوری عمل پر بھی پڑے گا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر علی امین گنڈاپور نے واقعی مرکز پر مالی سازش کا الزام لگایا ہے تو اس کی عدالتی یا آئینی سطح پر بھی جانچ ہونی چاہیے۔ ورنہ یہ بیانیہ محض سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال بتا رہی ہے کہ اگر سیاسی قیادت نے تحمل اور مفاہمت کا راستہ اختیار نہ کیا تو ادارہ جاتی ٹکراؤ اور عوامی بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بجٹ جیسے اہم اور حساس معاملے کو سیاسی جنگ کا میدان بنانا نہ صرف جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ صوبے میں گورننس کا بحران بھی جنم دے سکتا ہے۔