عرفان سلیم کی بغاوت: پارٹی قیادت پر الزامات، سینٹ انتخابات پر سوالات، اور پی ٹی آئی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں میں اب ایک نیا اضافہ ہوا ہے — خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما اور پارٹی کے سینئر رکن، عرفان سلیم، جنہوں نے کھل کر پارٹی قیادت کے خلاف بیان دے دیا ہے۔

عرفان سلیم نے اپنے تازہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے بعض حلقے اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ افراد کو سینٹ میں لانے کے لیے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم چاروں امیدوار ان کے خلاف نکل آئے ہیں اور کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”

عرفان سلیم نے خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں نہ آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “خیبرپختونخوا اسمبلی کے ایم پی ایز کو عمران خان کے نام پر ووٹ ملا ہے۔ ہم بانی قائد کے نظریے پر کسی صورت دبہ نہیں لگنے دیں گے، اور کھڑے رہیں گے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کی اصل طاقت نظریاتی کارکنان ہیں، اور اگر انہیں دبایا گیا یا ان کی آواز کو نظرانداز کیا گیا، تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔

پارٹی کے اندرونی اختلافات اور کرسی کی سیاست

عرفان سلیم نے کھل کر اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی میں پہلے سے ہی پھوٹ تھی، جو اب واضح طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ایوانوں میں کرسی کے حصول کی لالچ میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہ نہ صرف پارٹی کو کمزور کرے گا بلکہ عمران خان کی تحریک کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

خان کی ہدایات پر 5 اگست کو اڈیالہ جیل کے سامنے دھرنے کی تیاری جاری ہے، جس کا مقصد پارٹی چیئرمین کی رہائی کے لیے عوامی دباؤ پیدا کرنا ہے۔ تاہم، موجودہ اندرونی کشمکش کے پیشِ نظر یہ دھرنا بھی ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی کے اندرونی مسائل حل نہ کیے گئے، تو یہ دھرنا بھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔

خیبرپختونخوا: آغاز بھی، اور شاید انجام بھی؟

پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد کا آغاز خیبرپختونخوا سے ہوا تھا، جہاں سے پارٹی نے عوامی حمایت کی نئی مثالیں قائم کیں۔ مگر عرفان سلیم کے مطابق، یہیں سے پارٹی کے زوال کا آغاز بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر پارٹی قیادت نے جلد از جلد اصلاح احوال نہ کی، تو خیبرپختونخوا سے نکلنے والی ناراضگی ملک گیر بغاوت میں بدل سکتی ہے۔

نظریاتی ورکرز کی بیداری یا پارٹی کا زوال؟

عرفان سلیم جیسے رہنماؤں کی آواز محض تنقید نہیں بلکہ ایک ویک اپ کال ہے — تحریک انصاف کے ان تمام حلقوں کے لیے جو پارٹی کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کر کے مفاہمتی سیاست کو ترجیح دی گئی، تو نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ اس کے قائد عمران خان کی تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دی خیبر ٹائمز اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں ہم اپنے قارئین کو اس حوالےسے مزید اپڈیٹس فراہم کرتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں