“دہشتگردی کے نئے وار، ریاستی چیلینجز” خصوصی تحریر

بنوں میں ایف سی لائن پر حملہ اور اس کے بعد ہونے والا آپریشن ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ ختم نہیں ہوا بلکہ نئے انداز میں سر اُٹھا رہا ہے۔ حملہ آوروں نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے سکیورٹی فورسز کے مرکز کو نشانہ بنایا۔ یہ طریقہ کار اس بات کی علامت ہے کہ دشمن قوتیں اپنے اہداف کے لیے انتہائی منظم اور خطرناک حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔

اس کے باوجود سکیورٹی فورسز نے جس دلیری اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام چھ حملہ آوروں کو ہلاک کیا، وہ قوم کے اعتماد کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ چھ اہلکاروں کی شہادت اور متعدد زخمیوں کی قربانی ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ امن کی قیمت ہمیشہ خون اور قربانیوں سے ہی ادا کی جاتی ہے۔ عوامی سطح پر ان قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ فرنٹ لائن پر کھڑے جوان ہی حقیقی ہیروز ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گرد اتنی بڑی مقدار میں بارود اور اسلحہ لے کر حساس مقام تک کیسے پہنچے۔ یہ سکیورٹی پلاننگ اور انٹیلی جنس نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ جب تک انٹیلی جنس کا جال مزید مؤثر نہیں بنایا جاتا اور بارڈر مینجمنٹ میں کمزوریاں دور نہیں کی جاتیں، اس نوعیت کے حملوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔

ریاست کے لیے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو مسلسل قائم رکھے۔ صرف آپریشن کے بعد خراجِ تحسین یا انعامات کافی نہیں، بلکہ ایک جامع پالیسی کے تحت دہشت گردی کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ قربانیاں ایک تسلسل کا حصہ بن جائیں گی اور امن ایک دور کا خواب لگتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں