پشاور ( دی خیبر ٹائمز مانیٹرنگ ڈیسک ) ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ 13 جون 2025ء کو اسرائیل نے “آپریشن قدرتِ شیر” کے تحت تہران سمیت ایران کے کئی اہم فوجی اور جوہری اہداف پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین سلامی اور کئی اہم جوہری سائنسدان مارے گئے۔
اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران نے بھی “وعدہ صادق 3” آپریشن کے تحت تل ابیب، حیفہ اور دیگر اسرائیلی شہروں پر درجنوں بیلسٹک میزائل اور ڈرونز داغے، جن سے اسرائیل میں 14 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایران کے بیشتر ڈرونز اور میزائل راستے میں ہی تباہ کر دیے ہیں، تاہم کچھ میزائل اسرائیلی شہروں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
دونوں ممالک کے حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور سائنسدان نشانہ بنے ہیں۔ اسرائیل نے تہران کے رہائشی علاقوں، جوہری تنصیبات اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، جبکہ ایران نے اسرائیل کے فوجی و توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے کیے۔
خطے میں کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ امریکہ نے اپنے فوجیوں اور اہل خانہ کو عراق سے نکالنا شروع کر دیا ہے، جبکہ اسرائیل نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کو مزید تباہ کن جوابی کارروائیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں، اور تجزیہ کاروں کے مطابق مشرق وسطیٰ ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہو چکا ہے
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگی صورتحال مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے اور خطرناک دور کی علامت ہے۔ اسرائیل نے تہران سمیت کئی ایرانی شہروں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جن میں اہم فوجی اور جوہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے بھی اسرائیل پر 100 سے زائد بیلسٹک میزائل اور ڈرونز داغے، جس سے تل ابیب، حیفہ اور دیگر شہروں میں جانی و مالی نقصان ہوا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی جڑ ایران کا جوہری پروگرام اور خطے میں اس کا اثر و رسوخ ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے ایران کے جوہری عزائم کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ماضی میں اسرائیل نے ایرانی جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا، سائبر حملے کیے اور ایران پر سفارتی و معاشی دباؤ ڈالا۔
حالیہ حملے اس وقت ہوئے جب ایران نے یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک بڑھا دی، جو ایٹم بم بنانے کی سطح کے قریب ہے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ہر حد تک جائے گا، جبکہ ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان براہ راست جنگ خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی، معاشی بحران اور انسانی المیہ لا سکتی ہے