دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ :
پاکستان میں کورونا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 9 جون 2020ء تک کورونا مریضوں کی تعداد 113,702 ہو گئی، 24 گھنٹوں کے دوران کورونا سے 105 اموات ہوئیں, جس سے ہر شہری پریشان ہوگیا ماسوائے حکومت کے جو مسلسل یہ کہہ رہی ہےکہ ڈرنا نہیں، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اب اگر پاکستان میں اموات بھی بڑھ رہی ہیں، نئے کیسز میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، تو عوام کے پاس ڈرنے کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ اس حوالے سے پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار سید طلعت حسین اپنے ایک وی لاگ میں کہتے ہیں، کہ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ان تمام معاملات یا ذمہ داری کے حوالے سے حکومت عوام کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے، کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک برازیل، اٹلی, چائنا یا امریکہ میں تباہی ہوئی، لیکن وہاں کی حکومتوں نے عوام کو بالکل مورد الزام نہیں ٹھہرایا، یہاں ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے انوکھی مثال قائم کی کہ اگر وہ اس حالیہ وباء کورونا وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، تو مجرم ۔۔۔۔ عوام ؟؟
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد اور اموات کی تعداد اب بھی ان کے تخمینہ سے کم ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ روزانہ مزید کتنی اموات کی تعداد پہنچانے کا انتظار کر رہے ہیں؟
ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی خیبر ٹائمز کو بتایا ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ، ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے، ضروری استعمال کی کٹس کا شدید بحران، آئے روز ڈاکٹرز اور نرسز کی کورونا سے اموات، حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اور ہسپتالوں میں میڈیا پر مکمل غیر اعلانیہ پابندی کے باعث اب ڈاکٹرز اپنی نوکریاں چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ حکومت لاک ڈاؤن کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ پھر لوگ معاشی بحران کا شکار ہونگے اور خود اگر حکومت ہسپتالوں کو سہولیات فراہم نہیں کر سکتی تو لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں تک کیا پہنچائیگی۔ جب تک لاک ڈاؤن نہ کر سکے تب تک کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہیگا، جو موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں ۔
رمضان کے مہینے میں جزوی لاک ڈاؤن کے دوران اندازہ ہو گیا کہ پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن ممکن نہیں، کیونکہ یہاں بیشتر آبادی روزانہ کی اجرت کر کے شام کو کھاتی ہے، اب کورونا کے باعث ویسے بھی مزدوری یا کاروبار مکمل رکا ہوا ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی ادارۂ صحت پاکستان میں لاک ڈاؤن ناگزیر سمجھتا ہے، بصورت دیگرمسائل بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا
جا رہا ہے۔
معروف صحافی و اینکر پرسن عمران خان اپنے وی لاگ میں کہتے ہیں کہ ان کے پورے خاندان میں صرف وہی کورونا کے دوران گھر سے نکلے ہیں،،،، ان کے گھر میں جتنی احتیاطی تدابیر اپنائی جا رہی ہیں، شاید ہی کسی نے اپنائیں ہوں؟ لیکن پھر بھی وہ یا ان کا خاندان محفوظ نہیں رہے ، وہ کہتے ہیں، کہ شاید ہر پاکستانی کو اس کا سامنا کرنا ہو گا؟
دی خیبر ٹائمز کے خصوصی سروے کے دوران معلوم ہوا کہ اگر دنیا بھر سے کورونا ختم ہو جائے لیکن شاید ہی خیبر پختونخوا کے لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کر سکیں، یہاں غم اور خوشی پر وہی سماں دیکھنے کو ملتی ہے جو کورونا سے قبل تھا، یہاں غم اور خوشی میں بھی جانا ہوگا اور اگر کوئی کورونا کی احتیاطی تدابیر اپناتا ہے تو اسے لوگ ایمان کی کمزوری کا طعنہ دیتے ہیں، رمضان کے دوران مساجد میں تراویح اور نمازیں، عید پر رشتہ داروں کے گھر جانا، دوستوں سے ملنا ایسا ہی معمول رہا جیسا کورونا وائرس تو کسی اور ہی دنیا میں ہو، اکثر شہری ابھی تک اسے مذاق کے طور پر لے رہے ہیں،، اس حوالے سے جب یہاں پشاور کے صحافتی حلقہ سے معلوم کیا گیا تو یہ اندازہ ہوا کہ حکومت کے غیر سنجیدہ رویے نے اس سنگین صورتحال کو مشکوک کر دیا ہے، جس کا سہرا صوبائی اور وفاقی حکومت کے سر جاتا ہے !!