لدھا (دی خیبر ٹائمز نیوز ڈیسک) اپر جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی کی صورتحال ایک بار پھر تشویشناک رخ اختیار کر گئی ہے، جہاں دو مختلف تھانوں سے تعلق رکھنے والے سات پولیس اہلکار پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے ہیں۔ پولیس اور مقامی ذرائع کے مطابق یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب علاقے میں عسکریت پسند تنظیموں کی موجودگی کی اطلاعات پہلے ہی موجود تھیں۔
لاپتہ اہلکاروں کا تعلق لدھا پولیس اسٹیشن اور سرویکئی پولیس اسٹیشن سے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اہلکار اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ اچانک ان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ چند گھنٹوں میں ان کے تمام موبائل فون بند ہو گئے، جس کے بعد ان کی کوئی خبر موصول نہ ہو سکی۔
نہ پیغام، نہ دعویٰ ۔ مکمل خاموشی
تاحال کسی مسلح تنظیم یا گروہ نے ان اہلکاروں کی گمشدگی یا اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ نہ ہی پولیس اور نہ ہی اہل خانہ کو کسی قسم کی کوئی اطلاع، مطالبہ یا پیغام موصول ہوا ہے، جس کی وجہ سے معاملہ مزید پراسرار رخ اختیار کر گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی کا خدشہ
پولیس حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ علاقے میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی سرگرمیاں گزشتہ کچھ عرصے سے دوبارہ رپورٹ ہو رہی ہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کی جانب سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے، تاہم اغوا جیسے واقعات ماضی میں اسی تنظیم سے منسوب رہے ہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر نے دی خیبر ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایا:
“یہ علاقہ سیکیورٹی کے لحاظ سے نازک سمجھا جاتا ہے۔ ہم ہر ممکن زاویے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔”
اہل خانہ کا اضطراب، احتجاج کا خدشہ
لاپتہ پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جلد کارروائی نہ کی تو متاثرہ خاندان احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
واقعہ کے بعد سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے متاثرہ علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر لدھا، سرویکئی، مکین، مانڈہ اور آس پاس کے پہاڑی سلسلے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ مخبری نظام کو بھی فعال کیا گیا ہے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے:
“ہم زمینی اور فضائی سطح پر ہر زاویے سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ صرف لاپتہ اہلکاروں کا معاملہ نہیں، ریاستی رٹ کا مسئلہ ہے۔”
قبائلی اضلاع میں عدم تحفظ کی نئی لہر؟
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی صورت حال ایک بار پھر بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران سرکاری افسران، قبائلی مشران اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
پولیس اور سیکیورٹی ادارے واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سرگرم ہیں، تاہم تاحال کوئی حتمی سراغ یا دعویٰ سامنے نہیں آ سکا۔ علاقہ مکین، سول سوسائٹی اور میڈیا واقعے کی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔