پولیس اور مقامی لوگوں کے مطابق آج 20 اکتوبر کو صبح میر علی میں عسکریت پسندوں نے موسکی گاؤں کے رہنما ملک داؤد خان کو ٹارگٹ حملے میں قتل کر دیا، واقعہ کے فوراً بعد حملہ آور حسب معمول فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اور مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی حسب معمول تفتیش شروع کیا ہے۔
میر علی سے پولیس زرائع کے مطابق ملک داؤد میر علی میں نجی ہسپتال کے کلینک میں بیٹھا تھا کہ نقاب پوش مسلح افراد نے آکر اسے موقع پر گولی مارکر قتل کردیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ میرعلی پولیس کے مطابق ڈی پی او شمالی وزیرستان روخان زیب کی ہدایات پر پولیس نے تفتیش شروع کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ جبکہ ابھی تک مقامی پولیس نے اس قتل کی نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کردیا ہے،
واضح رہے کہ 27 ستمبر کو بکاخیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما کو بھی کینٹ کی حدود میں قتل کرکے حملہ اور فرار ہوگئے تھے، جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔
اسی روز شمالی وزیرستان کے سب سے شورش زدہ سمجھے جانے والے بازار میرعلی میں بھی مقامی شخص صدیق اللہ کو ٹارگٹ حملے میں قتل کیا گیا تھا۔
اس سے قبل 17ستمبر کو میرانشاہ میں ٹارگٹ کلرز پولیس اہلکار فرمان کو قتل کی تھا، جس کا بعد میں پولیس کے مطابق ان کے قتل میں ملوث کسی کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، تاہم ابھی تک ان کو یا ان کے تفصیلات عام شہریوں اور میڈیا کو میسر نہیں کئے گئے ہیں۔
اسی طرح 15 ستمبر کو شمالی وزیرستان میرانشاہ کے نواحی دیہات پالنگزائی میں بھی ٹارگٹ کلرز نے طارق نامی شخص کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
رواں سال شمالی وزیرستان میں 41 ٹارگٹڈ حملے ہوئے ہیں جن میں 50 سے زائد مقامی رہنما، سیاستدان، نوجوان اور سرکاری اہلکار قتل اور زخمی ہوئے ہیں۔
بنوں میں بھی جانی خیل اور بکا خیل میں ٹارگٹ حملوں میں درجنوں رہنما، نوجوان اور پولیس فورس اہلکار قتل ککردئے گئے ہیں۔
گزشتہ سال 2022 میں شمالی وزیرستان میں 46 ٹارگٹڈ حملے ہوئے، جن میں 60 سے زائد رہنما، سول اور سیاسی کارکن، نوجوان، مذہبی اسکالرز، سیکیورٹی فورسز، سرکاری اہلکار اور خواتین سمیت دیگر عام شہری مارے گئے۔
شمالی وزیرستان میں عدم تحفظ اور ٹارگٹ حملوں اور بدامنی کے خاتمے کیلئے وقتاً فوقتاً احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور جرگے ہوتے رہے ہیں اور حکومت نے خطے میں قیام امن کے لیے بھی کوششیں تیز کردی ہیں، تاہم شمالی وزیرستان میں ابھی تک بدامنی کا خاتمہ نہ ہوسکا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان مسلح افراد کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر چہرے پر خوف کے اثرات واضح نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ایک بار پھر اپنا علاقہ چھوڑنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں،
شمالی وزیرستان میں آئے روز سیکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری تنصیبات بھی ٹارگٹ ہورہے ہیں، شدت پسندوں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں، تاہم ابھی تک انہیں خاطر خواہ کامیابیاں نہیں ملے۔