قبائلی صحافی ہونے کے باوجود موجودہ حالات میں قبائلی اضلاع یا بڑھتی بدامنی پر لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں مگر آج چونکہ پشاور پریس کلب میں آزادی صحافت کے حوالے سے سیمینار تھا،
سیمینار میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عبدالطیف افریدی ”لطیف لالا“
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان،
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے قائدین،
خیبر یونین آف جرنلٹس کے ممبران،
سیاسی و سماجی شخصیات نے آزادی صحافت اور حالات پر کُھل کر گفتگو کی تفصیل میں جانے کے بجائے اختصار کے ساتھ اگر اصل موضوع کو زیر بحث لایاجائے، تو سوال یہ پیدا ہوجاتاہے، کہ بدامنی کا شکار خیبر پختون خوا خصوصاً قبائلی اضلاع میں جب سے اور جس شدت کے ساتھ مقامی لوگ امن کا مطالبہ کرتے ہیں، اسی شدت کیساتھ شدت پسندی ، دہشتگردی، طالبانائزیشن یا جو بھی نام دیں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اگر اپریشنوں کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے، سبز ہلالی پرچم تھام کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے اور حکومت سے تعاون کے باوجود اس خطے کے عوام امن سے نہیں جی سکتے تو انہیں مذید کیا کرنا چاہئیے؟
کونسے وسائل یا قربانی درکار ہوگی ؟
کیا اس جنگ اور بدامنی کے خاتمے کے لئیے عام عوام بدامنی شدت پسندی دہشتگردی کا مطالبہ شروع کریں ؟
طالبان شدت پسندوں، دہشتگردوں کی تعریفیں شروع کریں؟
اسلحہ لاکر کر اس کی نمائش شروع کریں؟
وہی لوگ جس نے قیام امن کیلئے آپریشن شروع ہونے سے قبل اپنی حفاظت کیئے کروڑوں اربوں روپے کا ذاتی اور قومی اسلحہ خود فورسز کے حوالے کیا تھا؟
کیا ٹریننگ سنٹر قائم کرکے مین روڈ پر بورڈز لگائے جائیں کہ یہاں پر دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے؟
داخلہ مفت کامیابی کی صورت میں جنت کا حصول یقینی جیسے الفاظ لکھے جائیں؟
یا پھر ان بدبخت عوام کو کیا کرنا چاہئیے ؟
اب تو فاٹا کا مرجر ہوچکا ہے اپریشنز ہوچکے ہیں وہ اسلحہ بھی نہیں رہا جومختلف اقوام زمینی تنازعات پر 6 فُٹ 9 فٹ ، 18 فٹ میزائل اور دیگر بھاری اسلحہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے تھے تو اس وقت پولیٹیکل انتظامیہ فریقین پر کروڑوں روپے جرمانے لگا کر اپنی جیبیں بھرتے تھے؟
اس وقت تو قبائلی اضلاع یا پسماندہ علاقوں کو علاقہ غیر پکار کر اندھیرنگری قائم تھیں؟
اب فاٹا کا صوبے کے ساتھ انضمام کے بعد عام عوام پوچھتے ہیں کہ آخر انہیں کیا کرنا چاہئیے؟
جس سے ان کا گناہ معاف اور علاقہ میں امن قائم ہوسکیں ؟
اپریشنوں کے بعد بھی جب امن نایاب ہے تو کیا لوگ امن کا مطالبہ، امن کا خواب حتیٰ کہ امن کی اُمید بھی چھوڑ دیں ؟
کیا کوئی ٹائم فریم ہے کہ بدامنی سے ”بد“ کا لفظ کب نکالا جائے گا ؟
قبائلی اضلاع میں ضلعی انتظامیہ حکومت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک آنکھ سے اندھا ہے، جو کرنا ہے کرلو انہیں نظر نہیں آتا ؟
مگر جب دوسری آنکھ کھول کر دیکھتے ہیں تو اللہ کے بعد طاقت کا سر چشمہ یہی حکومت اور حکومتی ادارے ہیں۔
حکومت جب چاہے تو ممکنات کو ناممکنات، اور ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،
پھر قیام امن میں اب تک کامیابی حاصل کیوں نہیں کرسکتے یا نہیں کرنا چاہتے؟
شمالی، جنوبی وزیرستان اور باجوڑمیں حالیہ کشیدگی کے باعث لوگ ایک بار پھر گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوجائینگے؟ یا حالات ٹھیک بھی ہونے کا امکان ہے؟
Load/Hide Comments