بنوں ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک ) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے جانی خیل دھرنا میں شرکت کرکے خطاب میں کہا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حکومت میں پختون بیٹھے ہیں مگر جو اپنے قوم کی تکلیف کو محسوس نہ کریں وہ پختون ہی نہیں ، خیبر پختونخوا کے کونے کونے سے جانی خیل قبائل کیساتھ اظہار یکجہتی کے ارادے سے آئے ہیں ، ہمارے گھر اور پارٹی پر یہی حالات گزرے ہیں اور سامنا کر رہے ہیں اے این پی اس جدو جہد کا نام ہے جس کی صدی پوری ہوگئی ہے اس دوران پختونوں کے جس علاقے میں بھی ظلم ہوا ہے ظالم کیخلاف مظلوم کیساتھ کھڑے ہیں یہ ہماری زندگی کا دستور ہے، امن ہر قوم اور قبیلے کا بنیاد ہے امن نہ ہو تو روزگار، تجارت ترقی اور انسانی زندگی نہیں ہوتی جو قومیں ترقی یافتہ ہیں وہاں پر جانوروں کو بھی انصاف ملتا ہے لیکن یہاں حالات اس کے بر عکس ہیں، گڈ بیڈ پختون ، گھر بندوق ، خون، کارتوس کندھا پختون کا اور اسلام کے نام پر مرتے بھی پختون ہیں یہ کونسا اسلام ہے سوات میں جب دہشتگرد منظم ہو رہے تھے، تو وہاں کی خواتین زیورات دیتی تھیں وہاں جہاد کے نام پر دہشتگردی ہوئی، حضرت محمد ص نے جہاد کے وقت یہ خطبہ دیا تھا کہ بزرگ خواتین بچوں کو نہیں مارو گے پناہ گزینوں کو پناہ دو گے ، جو جنگ نہیں لڑتے اس کیساتھ جنگ نہیں کروگے اب یہ کونسا اسلام ہے کہ بزرگ ، خواتین ، سکولوں میں طلبہ اور مساجد نمازیوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اسلام کے نام پر مدرسہ ، مذہب اور جہاد کا استعمال ہو رہا ہے لیکن اصل میں امریکہ کا منشور اور قانون لانا چاہتے ہیں، اسلام کے نام پر دکان گرم کر رکھا گیا ہے امریکہ سے پیسے آرہے ہیں کیا امریکہ بھی اسلام کا غلبہ چاہتی ہے؟ اس موقع پر اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک ، ایم پی اے نثار موند، سابق سینیٹر حاجی باز محمد خان ایڈووکیٹ، تیمور باز خان ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شاہین ضمیر، ڈاکٹر خادم حسین، شاہ قیاز باچا ایڈووکیٹ ، ناز علی خان وزیر نے بھی خطاب کیا، دھرنے میں سوات سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے رحمت علی خان ، شیرشاہ خان ، سابق ایم پی اے گل صاحب خان سمیت صقبے کے مختلف اضلاع سے کارکن شریک ہوئے، مقررین نے کہا کہ ملک نصیب کی طرح ہزاروں لاشیں خاموشی کے ساتھ سپردخاک کئے آج جو راستہ اختیار کیا ہے یہ انقلابی راستہ ہے منہ بند کئے بھی ہمیں لاشیں اٹھانی پڑی، ایسے میں عدم تشدد کا وہ ہتھیار اٹھائیں جس کا توڑ دنیا کے کسی بھی طاقت کے پاس نہیں یہ سب سے منظم اور معزز جرگہ ہے جب ہم نے اسمبلی میں آواز اٹھائی تو سیلیکٹڈ حکومت کی بنچوں سے ایک وزیر کی آواز آئی کہ یہ ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل کیا ہے ہمارا دھرنا تو اس لئے کہ یہ معلوم کریں کہ پختونوں کا دشمن کون ہے دھرنے کے مقصد دشمن کو پہنچاننا ہے باجوڑ میں گڈ اور بیڈ طاقتیں آپس میں لڑ پڑی، ایک نوجوان ان کا نشانہ بنا لیکن پختون مزید یہ برداشت نہیں کر سکتی ہمیں چائنہ پٹھان کہا گیا ہم سے دستور اور رواج بھی چھینا گیا ہمارے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے، لیز اور وسائل پر قبضہ کیا گیا مقعرین نے کہا کہ عدم تشدد کا راستے مسلسل اس جدو جہد کو سلام پیش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ تشدد کا مقابلہ عدم تشدد کے ساتھ کریں، پختونوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ کہ اج ہم ملک نصیب کی لاش کیلئے احتجاج کرتے ہیں مردان پولیو ڈیوٹی میں دو پولیس اہلکاروں کو قتل کیا گیا ہمیں یہ سلسلہ روکنا ہوگا، اس مٹی پر سرکاری سطح پر پختونوں کی نسل کشی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ہم خوب جانتے ہیں کوئی ہماری آنکھیں بند نہ کریں ہم جانتے ہیں میڈیا آزاد نہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں بے زبان ہیں ، پارلیمان خاموش، وہ عدالتیں خاموش جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر سوموٹو لیتی ہے یہ جنگ پختونوں کے خلاف ہے یہ جنگ صرف جانی خیل پر نہیں بلکہ جب بھی دہشت گردی کا منصوبہ بنایا جاتا ہے تو انتخاب پختونوں کی سرزمین کا ہوتا ہے ہمیں وسائل کے لحاظ سے اتنے کمزور کیا گیا پختونوں کو تقسیم کیا گیا یہ اس لئے جو آج پختونوں کا حال رواں ہے پختونوں کے دشمنی کو سر بازار کہتے ہیں کہ چوک ، حجرے اور گھر گھر جا کر امن کا نعرے بلند کریں گے آج پورے صوبے میں تمام اضلاع میں بد امنی کے خلاف احتجاج ہوگا ہم آج بھی کہتے ہیں مقررین نے کہا کہ جانی خیل قوم جو بھی فیصلہ کریں ہم ساتھ رہیں گے لیکن یہ فیصلہ اپنے اپ کیساتھ بھی کرنا ہوگا کہ اپنے قوم کے ہاتھ گڈ اور بیڈ سے روکیں اس کی دشمنی اور دوستی میں نقصان ہے ہمیں اس کا نظریہ ختم کرنا ہوگا۔بہت جلد تمام پختون سیاستدان ، مزاحمتی تحریکیں ، قام پرست جماعتیں، وکلاء تاجر اور ڈاکٹروں پر مشتمل لویہ جرگہ بلائیں گے ہم امن چاہتے ہیں اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اپنے لئے جو امن چاہتے ہیں دوسروں کیلئے چاہتے ہیں، اج ایک بار پھر افغانستان میں ماضی جیسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں، لیکن ہم یہ واضح کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے افغانستان میں مداخلت کرکے بہت نقصان اٹھایا اور اب بھی یہی کہتے ہیں کہ نہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی جائے اور نہ اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کی جائے۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments