پشاور ( دی خیبرٹائمز جنرل رپورٹنگ ڈیسک ) پشاور میں سول سوسائٹی تنظیموں کے ارکان کی جانب سے ایک خباری بیان میں کہا گیاہے، کہ طلباء کی کم تعداد کی وجہ سے 71 سرکاری سکولوں کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی حالیہ دستاویزات کے مطابق ضلع پشاور میں کل 71 اسکول حکومت کی طرف سے طالب علموں کی کم تعداد کی وجہ سے بند کئے گئے ہیں۔جن میں 64 پرائمری اور سات مڈل اسکول شامل ہیں جن میں سے 45 پرائمری اور دو مڈل اسکول طالبات کے ہیں۔
سول سوسائٹی کے ارکان نے اس بندش کو صوبے میں تعلیمی اصلاحات کی جانب پیش رفت کے لیے خطرہ قرار دیا، جس سے خیبر پختونخواہ میں لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور تعلیم کے حق پر منفی نتائج اور صنفی اثرات کو تقویت ملے گی۔
ثنا احمد، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی کارکن اور چائلڈ رائٹس موومنٹ کے پی کے کوآرڈینیٹر نے کہا کہ “اسکولوں کی بندش سے تمام کمیونٹیز کے لوگوں کے لیے بہت زیادہ سماجی و اقتصادی اخراجات ہوتے ہیں، تاہم، منفی اثرات خاص طور پر سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ لڑکوں اور لڑکیوں اور ان کے خاندانوں پر پڑتے ہیں۔ ”
پریس بیان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری مردم شماری کے حصے کے طور پر ابتدائی اور ثانوی اسکول کے اساتذہ کی مدد سے کیے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں پہلے ہی سے 4.7 ملین بچے تعلیم سے باہر ہیں۔ سروے کے حالیہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ھوئے ثناء نے کہا،
قمر نسیم، ممبر ایجوکیشن چیمپیئن نیٹ ورک اور ایجوکیشن رائٹس ایکٹیوسٹ نے بتایا کہ “صوبے میں سکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 2.9 ملین ہے، جو کہ اسی عمر کے گروپ کی کل 5.4 ملین لڑکیوں کی آبادی کا 53 فیصد بنتی ہے، اور رپورٹ میں متعدد عوامل بیان کیے گئے ہیں۔” “لڑکیوں کی تعلیم کو پہلے ہی کثیر سطح کے چیلنجز کا سامنا ہے اور اسکولوں کی بندش اور اس کے نتیجے میں آنے والی رکاوٹیں تعلیمی نظام میں پہلے سے موجود تفاوت کو مزید بڑھا دے گی”۔
بچوں کے حقوق کے کارکن عمران ٹکر نے کہا، “حکومت نے اسکول سے باہر بچوں کو تعلیمی نظام میں داخل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، اس سلسلے میں دوسری شفٹ ایک قابل ذکر اقدام ہے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے چاہییں کہ پشاور میں اسکولوں کی حالیہ بندش سے متاثر ہونے والے بچے تعلیمی نظام میں داخل ہوں تاکہ طلباء و طالبات اپنی تعلیمی سرگرمیاں بلا تعطل جاری رکھ سکے۔
