تحریر:عالم زیب وزیر
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت ڈیپارٹمنٹ اسکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز (SMCS) کی زیر نگرانی ایک سمینار منعقد کیا گیا جس میں پاکستان کے مختلف ریجنز پشاور، بلوچستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
اس سمینار میں پاکستان کی مشہور و معروف شخصیات، “وائس چئیرمین آف ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان راجہ اشرف” اور سینئر اینکر و تجزیہ کار “سید مزمل شاہ” کو بطور مہمان مدعو کیا گیا۔
راجہ اشرف نے طلباء کی پرسنل گرومنگ کرتے ہوۓ سوشل میڈیا کے مثبت استعمالات کو زیر بحث لایا۔ انہوں نے بتایا کے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حقائق پر مبنی مواد کو سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں کے ساتھ شئیر کرے اور ہر اس مسئلہ کے خلاف آواز اٹھائے جو کے معاشرے میں جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالے جو کہ میڈیا لوگوں تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ ان تمام جرائم سے پردہ اٹھائیں جو ملک کے کسی کونے، گلی، بازار میں رونما ہورہے ہیں مگر ہمارا میڈیا ان تک رسائی حاصل کرنے اور انھیں جُوں کا تُوں نشر کرنے میں ناکام ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا 80 فی صد سوشل میڈیا صارف ہے۔ نوجوانوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ موجودہ ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کی توجہ ان پہلوؤں کی طرف مبذول کروانی چاہیے جو کے معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بن رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی ذہنی و جسمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں میں یہ روح پھونکنی ہوگی کے وہ خود کو تعمیری اور پختہ نظریاتی سوچ کی جانب مبذول کروا سکیں۔
سیّد مزمل شاہ کا یہ کہنا تھا کے میڈیا ستم رسیدہ لوگوں کی طرف سے ایک بولنے والا آلہ ہے مگر بدقسمتی سے میڈیا آپکو وہ حقائق نہیں دکھا سکتا جو کے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں میڈیا ایک ایسی کٹھ پتلی بن چکا ہے جس کی ڈوری سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جس طرح سے چاہتے ہیں مختلف معلومات اور حالات و واقعیات کو آپ تک پہنچاتے ہیں جو کے حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں۔
وہ تمام پہلوں جو میڈیا دکھاتا ہے وہ نوجوان نسل کی فکری اور نظریاتی سوچ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ میڈیا کا مثبت پہلوؤں کو منفیت کا جامہ پہنا کر نشر کرنا انسانی ارتقائی سوچ میں خلل ڈالتا ہے اور لوگ اس چیز کے بارے میں ویسی ہی راۓ قائم کر لیتے ہیں جس زاویے سے وہ چیز ان تک پہنچائی جاتی ہے۔ ایک (opinion leader) اپنے وسائل کا مثبت استعمال کرتا ہے یا منفی استعمال یہ اُس کی سوچ اور اُسکے نظریہ پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ اپنی راۓ لوگوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے اور نت نئی سوچوں کو جنم دیتا ہے۔ اگر تو یہ سوچ مثبت نظریہ پر قائم ہوتی ہے تو اس سے ایک پختہ سوچ کی نظریاتی نوجوان نسل پروان چڑھتی ہے جو کے انقلابی سوچ کو معاشرے میں لاگو کرتی ہے۔ اگر یہ سوچ کسی منفی نظریہ پر قائم ہو تو ایک ایسی نوجوان نسل پروان چڑھتی ہے جس کا مقصد منفی پروپیگنڈہ کو پرموٹ کرنا ہوتا ہے۔ میڈیا کا انسانی زندگی کو بنانے اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ہے۔ میڈیا کو اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوۓ لوگوں تک حق اور سچ پر مبنی نظریات کو نشر کرنا ہوگا تا کے لوگ کسی بھی نقطے کے بارے میں اپنی غلط رائے قائم نہ کر سکیں۔
سمینار کے اختتام میں طلباء کی جانب سے سوالات و جوابات کا سیشن شروع کیا گیا۔ اس سیشن میں نوجوانوں کی فکری و ارتقائی سوچ کے متعلق مختلف سوالات کئے گئے جنھیں دونوں سپیکرز کی جانب سے بخوبی ڈیفنڈ کیا گیا اور طلباء کو ان کے ذاتی مسائل کے حل میں کافی مدد ملی۔
میم “نور العین” کی جانب سے تمام مہمانوں، فکلٹی ممبرز اور ڈین کا شکریہ ادا کیا گیا کے انہوں نے اس سمینار کو کامیاب بنانے میں بھرپور حصہ ڈالا۔
امید ہے کہ نوجوانوں میں ایسی ادبی، فکری اور ارتقائی سوچ کی ڈویلپمنٹ کے لئے ایسے سمینارز کا انعقاد ہوتا رہے گا۔