شہید صحافی خلیل جبران شہادت کیس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی سطح پرکمیشن بنایاجائے، کے پی یو جے

خیبر ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک ) تین روز قبل قبائلی ضلع خیبرمیں شہید کئے جانے والے قبائلی صحافی خلیل جبران کے بہیمانہ قتل کے خلاف باب خیبر پاک افغان شاہراہ پر احتجاجی ریلی اور دھرنے کا انعقاد کیا گیا ، خیبر پختونخوا یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام ہونے والے ریلی کے شراکا نے شہید صحافی قتل کیس کی تحقیقات کیلئے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے قیام اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیاگیا، خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس نے پیر کے روز سے احتجاجی مظاہروں میں شدت لانے کا اعلان بھی کیا گیا۔

قبائلی ضلع خیبر کے لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر خلیل جبران کے بہیمانہ قتل و صحافیوں کو تحفظ فراہم نہ کرنے کے خلاف جمرود پریس کلب سے تاریخی باب خیبر تک ریلی نکالی گئی جس میں صحافیوں کے علاؤہ سیاسی قائدین، سماجی کارکنوں ،وکلاء، تاجر برادری ، قبائلی عمائدین اور دیگر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

ریلی شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز و پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر مختلف نعرے درج تھے، احتجاجی دھرنے سے سنئیر صحافی شمیم شاہد ،ناصر حسین،خیبر بار ایسوسی ایشن کے صدر فرہاد ایڈوکیٹ، شاہ حسین شینواری، خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس کے صدر شمس مومند، سابقہ ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے صدر صفدر داوڑ، زوان کوکی خیل اتحاد کے صدر ثناءاللہ آفریدی ، تحصیل لنڈی کوتل کے چیئرمین شاہ خالد شینواری، مراد حسین شینواری و دیگر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہید صحافی خلیل جبران کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرکے قاتلوں کو گرفتار کرکے کڑی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خلیل جبران کے ورثاء کو شہید پیکج دی جائے اور ان کے بچوں کے صحت و مفت تعلیم کا بندوبست کیاجائے جبکہ دیگر قبائلی صحافیوں کو تحفظ فراہم کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں اور شہریوں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت ریاست اور ریاستی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے تاہم وہ یہ آئینی اور قانونی ذمہ داری نبھانے میں ریاستی مشینری اب تک مکمل ناکام ہوچکی ہے ، مقررین نے افسوس کا اظہار کرتے یوئے کہا ، کہ خلیل جبران خون میں لت پت تڑپتے رہے لیکن پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے بروقت کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی علاقے کو گھیرے میں لیکر یا ناکہ بندیاں کرکے کوئی سرچ آپریشن کیا۔

انہوں نے کہا کہ تین دن گزرنے کے باوجود خلیل جبران شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے عوام کے سامنے پیش نہ کرنا اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، جبکہ مقامی سیکورٹی کا زمہ دار افسر ڈی پی او کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے، مقررین نے کہا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے خلیل جبران قتل کے ایف آئی آر میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کر کے بعض اہم دفعات شامل نہیں کئے، بلکہ وقوعہ کے موقع پر موجود دیگر زخمیوں کے ناموں کو بھی ایف آئی آر میں نامزد نہیں کئے گئے جس سے غمزدہ خاندان و صحافی برادری کو مایوسی ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر خاموش نہیں رہینگے اور علاقے میں دیرپا امن کے قیام کیلئے قومی سطح پر مضبوط اتحاد بنائیں گے۔ ریلی و دھرنا شرکاء نے سپریم کورٹ کی سطح پر واقعہ کی تحقیقات کرنے اور مرحوم کے ورثاء کو ایک کروڑ روپے شہید پیکج اور بچوں کو مفت تعلیم دینے کا بھی مطالبہ کیا اور تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پیر کے دن سے مظاہروں میں شدت لائینگے، اور اس وقت تک یہ مظاہرے جاری رکھینگے جب تک شہید صحافی خلیل جبران سمیت دیگر شہید صحافیوں کی عدالتی تحقیقات نہیں کی جاتی اور مجرموں کو عبرتناک سزاء نہیں دی جاتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں