میوزیکل لیجنڈ گزشتہ کچھ دنوں سے لراچی کے پورٹ سٹی ہسپتال میں زیر علاج تھی، تاہم اس کے خاندانی ذرائع نے ان کی دنیا فانی سے رحلت فرمانے کی تصدیق کی ہے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی نماز جنازہ آج 21 اگست اتوار کی شام 4 بجے کراچی کے ڈیفنس سٹی ایریا میں واقع مسجد/امام بارگاہ یسرب میں ادا کی جائے گی۔ جہاں سے انہیں ڈیفنس کے فیز 8 کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائیگا۔
پاکستان کی 71 سالہ میلوڈی کوئین، نیرہ نور کا شمار ملک کی ٹاپ پلے بیک سنگرز میں ہوتا تھا۔ موسیقی کا کوئی باضابطہ پس منظر نہ ہونے کی وجہ سے نور نے موسیقی کی کوئی باقاعدہ تربیت بھی حاصل نہیں کی، تاہم، اس نے پورے برصغیر میں اپنی گائیکی کی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
وہ 3 نومبر 1950 کو بھارت کے گوہاٹی، آسام میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے ابتدائی دن گزارے۔ وہ سات سال کی تھیں جب ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوگیا۔
بچپن سے ہی اسے بیگم اختر کی غزلوں، ٹھمریوں اور کنن دیوی کے بھجنوں کا شوق تھا۔ بعد ازاں 1968 میں نور نے ریڈیو پاکستان اور پھر 1971 میں پاکستان ٹیلی ویژن پر گانے گانا شروع کردئے، پھر گلوکارہ نے اپنے نہ رکنے والے موسیقی کے سفر میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
1973 میں، انہیں فلم گھرانہ میں بہترین پلے بیک سنگر کیلئے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1977 میں ان کی شہرت عروج پر پہنچی کیونکہ فلم گھرانہ کے گانوں نے پاکستانیوں کے دلوں کو چھو لیا۔
پاکستانی فلموں کے لیے نیئرہ نور کے سینکڑوں گانے آج بھی ان کے مداحوں کی یادوں میں تازہ ہیں۔ برصغیر میں ان کے مداح آج بھی ان کی غزلوں کو یاد کرتے ہیں۔
نیرہ نور نے اپنے دور میں فلم اور ٹی وی کے لیے ہر بڑے موسیقار کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی بہترین کارکردگی دکھائی۔ انہوں نے پی ٹی وی ڈرامہ سیریل ‘تیسرا کنارا کے لیے احمد شمیم کا کبھی ہم بھی خوبصورت تھے’ کا گانا گایا۔
نیارہ کو ابنِ انشا کی غزلیں اور گانے پسند تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان میں ‘جلے تو جلاؤ گوری’ جیسی منفرد روش ہے۔
گلوکارہ کے طور پر اپنے طویل کیرئیر میں نیرہ نور کو بہت پذیرائی ملی اور انہیں بلبل پاکستان (پاکستان کی شباب) کا خطاب دیا گیا۔
2006 میں، نور کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا، اور 2012 میں، انہوں نے اپنے پیشہ ور گلوکاری کے کیریئر کو یہ کہہ کر الوداع کر دیا کہ وقت پر پیچھے ہٹنا اعزاز کی بات ہے، گوشہ نشینی کے آج 10 سال بعد نور دنیا س فانی سے کوچ تو کرگئی، لیکن فن کی ٌدمت کرتے کرتے ایسا نام بنادیا جہاں ہمیشہ ان کا نام یاد رکھا جائیگا۔