شمالی وزیرستان ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک ) شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کے دوران تین دینی مدارس حکومتی کنٹرول میں آئے ہیں، جسے ابھی تک خالی نہیں کئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں دینی علوم کے طالبعلم علم کے نور سے محروم ہورہے ہیں، ھمارے ہزاروں طلباء دینی تعلیم سے محروم ہورہے ہیں، ان خیالات کا اظہار میرانشاہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ھوئےمہتمم مدرسہ نور مفتی سید انور مولانا دریا جان ، ناظم مدرسہ نور مولانا طاہر ، مولانا حنیف ، مولانا اختر محمد، و دیگرنے کہاکہ اپریشن ضرب عضب کے وقت سے لے کر آج تک دینی مدارس پاک ارمی کے زیراستعمال ہیں جن میں سرفہرست مدارس مدرسہ دارالعلوم حسنیہ نورک جو حکومت کے ہاں وفاق المدارس میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہے، مدرسہ حنفیہ مختار العلوم اور مدرسہ دارالعلوم شرعیہ موسکی ہے، اپریشن ضرب عضب کے بعد اس نے کئی مرتبہ سول انتظامیہ ، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ انہیں خالی کرنے کیلئے مذاکرات کئے ہیں، تاہم ابھی تک تمام مذاکرات اور کوششیں بے سود ہوگئے ہیں،
پچھلے سال جب اتمانزئی جرگہ اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے تو سیول انتظامیہ اور اداروں نے جرگے کا یہ مطالبہ مان لیا تھا کہ جو مدارس حکومت کے زیر استعمال ہیں ان مدارس کو مدارس انتظامیہ کے حوالے کئے جائیں گے، مگر اس کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ، انھوں نے کہاکہ نورک مدرسہ کی دو عمارتیں ہیں ایک رزمک اور دوسری نورک میرعلی میں قائم ہیں ، نورک میں موسم سرما جبکہ رزمک میں گرمیوں میں پڑھائی کیجاتی ھے، اس سال رزمک میں پڑھائی اس امید سے شروع کی گئی، کہ اتمانزئی جرگہ اور حکومت نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ نورک مدرسہ اور باقی مدارس مدارس انتظامیہ کے حوالے کرکے اپنی سرگرمیوں کا پھر سے آغاز کرینگے۔
مگر اج تک حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا اب چونکہ سردی کا موسم شروع ہو چکا ہے اور رزمک میں ٹھنڈ کی وجہ سے پڑھائی ممکن نہیں اس مجبوری کی وجہ سے ہم نے نورک کے مقام پر احتجاجی کیمپ بھی لگایا ہے جو تقریبا ایک ماہ گزر گیا کہ ہم مسلسل پرامن احتجاج کر رہے ہیں لیکن اج تک حکومت کی طرف سے صرف وعدہ ہی وعدے کئے جارہے ہیں،
شمالی وزیرستان کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں علماء کرام طلباء کرام قومی مشران اور بورا خیل قوم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ مدارس کو مدارس انتظامیہ کے حوالے کرے تاکہ دوسری تعلیمی اداروں کی طرح یہاں پر بھی تعلیمی سرگرمیاں شروع کی جا سکیں ۔ یہ ہمارا آئینی اور شرعی حق ہے ۔
پریس کانفرنس کے شراکا کا یہ بھی کہنا تھا، کہ کسی صورت دینی علوم کیلئے وقف کی گئی اراضی کو کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال کرنا شرعاً حرام ہے، اس لئے ان مدارس کی عمارت کسی سکول یا کسی اور مقصد کیلئے ہم نہیں دے سکتے، انہوں نے تینوں دینی درسگاہوں کو دینی علوم کیلئے خالی کردئے جائیں۔