بنوں ( محمد وسیم سے ) سابق ہاکی کپتان اولمپیئن عبدالرشید ایک عرصے سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے جو اسلام آباد میں ہسپتال میں اس مرض سے شکست کھا کر دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے مرحوم کی نماز جنازہ میلاد پارک بنوں میں ادا کی گئی اور آبائی گاؤں غوریوالہ میں سپردخاک کیا گیا لیجنڈ عبدالرشید جونیئر بنوں کے علاقہ غوریوالہ میں 1948میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 بنوں سے حاصل کی،بعد میں اسلامیہ کالج پشاور اور پھر اعلیٰ تعلیم پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی، جہاں سے وہ قومی ہاکی ٹیم کیلئے سیلیکٹ ہوئے ان کی سیلیکٹ کے وقت اُن کے بڑے بھائی سابق اولمپیئن بریگیڈیئر(ر) حمید عرف حمیدی سیلیکٹر تھے جو اُن کی سییلیکشن نہیں کرتے تھے تاکہ اُ ن پر یہ الزام نہ لگے کہ بھائی ہونے کے ناطے سیلیکشن کی ہے بریگیڈیئر(ر) حمید عرف حمیدی نے بھی پاکستان کیلئے 1960میں ایک گولڈ میڈل جیتا تھا اور چار اولمپیک گیم زکھیلے تھے جو اب تک کسی پاکستانی کھلاڑی کو یہ اعزا حاصل نہیں، عبدالرشید جونیئر نے بھی اپنے کیرئر کے دوران تین اولمپیئن گیمز اور ایک ورلڈ کپ میں حصہ لیا، اُنہوں نے 1968 میں پاکستان کیلئے اولمپک میں گولڈ میڈل , 1972 اولمپک میں سلور اور 1976 میں اولمپک میں برونز کا تمغہ جیتا عبدالرشید جونیئر نے سال 1971 کے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی فاتح پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی ریٹائرمنٹ کے وقت تک پاکستان کے لئے سب سے زیادہ 96 گول کئے اسکور کئے تھے مرحوم جونیئر ہاکی ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کے منیجر بھی رہے
اُن کے شمار بین الاقوامی ہاکی کے صف اول کے سینئر فاروڈز میں ہو تا ہے 70کی دہائی میں وہ خریف ٹیموں کیلئے بڑا خطرہ تھے، اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ساتھی کھلاڑی سے ملنے والے پاس پر وہ خریف کھلاڑی کو چکمہ دیکر ڈربلنگ کے ساتھ بال کو ڈی اور گول میں پہنچا دیتے تھے اس خوبی کی وجہ سے وہ شارپ شوٹر اور کنگ آف دی ڈی کے نام سے مشہور تھے،عبدالرشید جونیئر ایک عرصہ وہ نہایت علیل تھے اور ایک ماہ پہلے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جو اسلام آباد الشفاء ہسپتال میں زیر علاج تھے اس دوران حکومت کی طرف سے اُن کے ساتھ کوئی امداد نہیں کی گئی اور آخر کار کینسر سے لڑتے لڑتے ہار گئے اُن کی وفات پر ہاکی کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں اور شائقین کے ساتھ ساتھ بنوں کے سیاسی و سماجی حلقوں نے نہایت دکھ اور آفسوس کا اظہار کیا ہے اُنہوں نے ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑے ہیں اُن کے ہاکی کے شاگرد رحیم خان کہتے ہیں کہ1993 جب ہم قومی ہاکی ٹیم آ ئے تو اس وقت جاپان میں ایشیا کپ کے دوران مرحوم ہمارے ٹیم کے منیجر تھے جبکہ اس سے پہلے سیلکٹر تھے جرمنی، فرانس اور انگلینڈ میں ہونے والے ایونٹس میں ٹیم کی بہترین رہنمائی کی تھی، ان کے خاندان کی قومی ہاکی ٹیم کیلئے خدمات تاریخی ہیں اُنہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا، بطور کھلاڑی اور بطور مینجمنٹ اُنہوں نے قومی ہاکی ٹیم کی بہترین نمائندگی کی، اُن کے ساتھ میرے قریبی تعلقات تھے اور نہایت خوش طبیعت کے مالک انسان تھے، ایک دورے ہاکی کھلاڑی کا کہنا ہے کہ بنوں کے کھلاڑیوں کیلئے پی ایچ ایف میں عبدالرشید جونیئر نے بہترین خدمات سرانجام دی ہیں اور آج یہ اُن کی محنت کا نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں جہاں بھی ہاکی کے تربیتی کیمپس ہو رہے ہیں اُن میں بنوں کے کھلاڑی بھی شامل ہیں اُنہوں نے آفسوس کا اظہار کیا کہ آج یہ تاریخی دن ہے لیکن عالمی شہرت یافتہ اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرنے والے کھلاڑی کی نماز جنازہ میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا کوئی بھی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔