شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، 2 سیکیورٹی اہلکار شہید 4 زخمی

میرعلی ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک ) شمالی وزیرستان کے تحصیل میر علی کے علاقہ عیدک کے قریب۔مین بنو ں میران شاہ روڈ پر سیکورٹی فورسز پر حملے کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق دو سیکورٹی اہلکار شہید جبکہ چار زخمی ہوئے ہیں۔ حملے میں دو مقامی سول افراد بھی زخمی ہو گئے ہیں۔ مقامی پولیس ذرائع نے دی خیبرٹائمز کو بتایا ہے کہ ہفتے کو میرعلی سب ڈویژن کے علاقے عیدک کے قریب سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر بم حملہ ہوا ہے، پولیس زرائع کے مطابق یہ تصدیق نہیں کی کہ حملہ ریموٹ کنٹرول تھا یا خود کش دھماکہ تھا، پولیس ذرائع کے مطابق دھماکے میں دو سیکورٹی اہلکار حوالدار زبیر اور سپاہی عزیر افسر موقع پر شہید جبکہ دیگر 4 اہلکار زخمی ہوگئے ہیں جن کےنام صوبیدار منیر، سپاہی قاسم ، لانس نائیک عزیز ، اور سپاہی راشد بتائے گئے ہیں، زخمیوں میں دو کی حالت نازک بتا ئی جاتی ہے۔ شہید اہلکاروں کی جسد خاکی اور زخمی اہلکاروں کو سی ایم ایچ ہسپتال بنوں منتقل کردئے ہیں، سیکورٹی فورسز پر حملے کے دوران قریبی سروس سٹیشن پر کام کرنے والے دو مقامی بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ وقوعہ کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سرچ آپریشن شروع کی ہے تاہم کسی قسم کی گرفتاری کا اطلاع نہیں ہے۔
اس حملے سے قبل ان رلاقوں میں ایسے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان قبول کرلیتے، تاہم آج کا یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا کہ ایک طرف حکومت اور تحریک طالبان کے مابین امن مذاکرات چل رہے ہیں، ٹی ٹی پی نے سیز فائر کا اعلان بھی کیا گیا ہے، مقامی زرائع کے مطابق اپریشن ٖضرب عضب کے دوران بیشتر دہشتگرد افغانستان میں پناہ حاصل کرچکے تھے، اب سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نرمی کا فائدہ حاصل کرنے کے بعد بیشتر دہشتگرد ایک بار پھر پاکستان داخل ہوگئے ہیں، جس نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، مقامی زرائع کا یہ بھی کہنا تھا، کہ افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے وہ دہشتگرد بھی موجود ہیں، جو ہمیشہ پاکستان مخالف رہے ہیں، جن کا اٹھنا بیٹھنا اُزبک تاجک جنگجؤوں رہاہے، جس سے وہ مراعات حاصل کرکے اپنے گھروں کے اندر پناہ بھی دئے ہوئےتھے، امن مذاکرات میں مصروف جرگہ زرائع نے بتایا کہ امن عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے اب یہی پاکستان مخالف دہشتگرد ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا امکان ہے،
شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف ملک کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین اپریشن شروع کیا، جو ابھی تک جاری ہے، آج بھی اپریشن ضرب عضب کے متاثرین گھروں سے دور اور بعض ہمسایہ ملک افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں، تاہم اس اپریشن سے وہ ثمرات حاصل نہیں کئے جاسکے جس کی توقع کی جاتی تھی، اب اپریشنز کے برعکس ان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کی جارہی ہے، امن مذاکرات کیلئے جاری کوششوں سے عام شہری خوش نظر نہیں آتے، بیشتر سیاسی حلقے اور عام شہریوں سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا، کہ اگر ان کے ساتھ سیکیورٹی ادارے مذاکرات کرنا چاہتے تھے، تو اتنے بڑے اپریشنز کی کیا ضرورت تھیں؟ جس سے 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، اور میرعلی میران شاہ اور دتہ خیل کے بازار مسمار ہوئے، ہزاروں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے،

اپنا تبصرہ بھیجیں