ویسے تو عموماً خیبرپختونخوا پولیس نے وطن اور مٹی کی خاطر وہ قربانیاں دئیے جو ان کے اوپر واجب الادا بھی نہیں تھیں،ان سجیلے جوانوں نے موت کو گلے لگاتے ہوئے بھی خود کو اس ان اور شان سے سجایا کہ موت کو بھی رشک ہونے لگا کہ کس ہستی کو چو رہاہوں، چبہت سے جوانوں نے اپنی سانس روک کر قوم کی سانسیں برقرار رکھیں، راتوں کو جاگ کر قوم کو گہری نیند سلاتے رہیں، ملک و قوم کی دفاع کی خاطر خطرے کی ہر دفاعی سرحد کو پار کرگئے، اس بہادر اور مثالی پولیس کے جوانوں اور افسران نے یہ ثابت کیا کہ ننگ و غیرت کوئی ھم سے سیکھے، وطن پر قربان ہونے کا جلال ہم ہی متعارف کرارہے ہیں، اور پھر یہ ثابت کردیا کہ ملک وقوم کی خان خاطر خون کا ہر قطرہ حاضر ہے،
اس بہادر پولیس فورس کی فخر و افتخار کی ماتے پر اگر ملک سعد، صفت غفور، طاہر داوڑ جیسے جھومر سج رہے ہیں تو اس میں آج بھی ایسے آفیسرز موجود ہیں جو اس فورس کی آن،شان اور ایمان ہیں، نام لکھنے پر اگر اجاوں تو دیوان بھرنا پڑیگا، لیکن چند افسران ایسے ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ خود ڈر کو بھی ڈر لگ سکتا ہے اگر سامنے والا کے پی پولیس سے ہو، ان افسران میں سجاد خان ہے جو پشاور، بنوں،مردان، ہنگو اور سوات میں ان حالات میں ڈی پی او رہا ہے جن حالات میں موت ہر گھنٹے یہاں حاضری دیا کرتا تھا، لیکن اس بہادر پولیس آفیسر نے ہر بارموت کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس جرات مندی سے اپنا کام کیا کہ جرات و بہادری کو بھی رشک آنے لگا،موصوف کو حال ہی میں ایف آئی اے میں ایک غیر موثر پوسٹ پر ڈالا ہے،مطلب اس پولیس آفیسر سے مزیدکام لینا چاہئے تھا،لیکن پتہ نہیں کون اور کیوں ایسے نڈر افسران کو کھڈے لائن لگانے میں دلچسپی لے رہا ہے؟موصوف نے پشاور میں رہ کر یہ ثابت کیا تھا کہ پشاور میں سٹریٹ کرائمز کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟مردان میں بطور ڈی پی او وہ وہ کیس حل کردئیے جس کے وارثین کو بھی یقین تھا کہ اب کچھ ہونے والا نہیں ہے،اس طرح ایس پی ساجد نواز خان نے فوج سے آکر پولیس فورس جائن کیا،پولیس میں رہ کر فوجی انداز میں ہر کام ڈسپلین سے کیا، ایلیٹ فورس کو ایسا بنایا جب اس فورس کے جوان سڑکوں پر گشت کرتے ہیں تو سامنے والا خود کو کسی ہالی ووڈ فلم کا سین سمجھ کر دیکھتا ہے،اور دیکھتا ہی رہ جاتا ہے.
اس پولیس آفیسر کو بھی ستارا سالہ نوکری کا صلہ یہ ملنے والا ہے کہ اس کو گھر بٹھانے کا پروگرام بنایا جارہا ہے،اب یہ سب کون اور کیوں کررہا ہے؟اس کا جواب نہ تو خود پولیس اور نہ ہمارے ٹیک ٹاکر آئی جی پی کے پاس ہے،شائد موصوف عملی کام کی بجائے سوشل میڈیا کی دنیا میں کچھ زیادہ ہی خودنمائی کرنے میں مصروف ہیں،اسی طرح فضل واحد ڈی ایس پی کو مردان بیھج کر ضلع بدر کردیا ہے اگرچہ فضل واحد ڈی ایس پی کا نام ہی پشاور میں کافی تھا،اور اس بڑے شہر کو اس جیسے بہادر اور نڈر پولیس آفیسر کی ضرورت ہے،رحیم حسین ڈی ایس پی جو اب خیر سے ایس پی بن گئے ہیں وہ بھی ایس پی سیکورٹی جیسے غیر فعال پوسٹ پر جو شرافت اور دیانت میں اپنی مثال اپ ہے،ان کو بھی پہلے مردان یاترا کرایا گیا پھر پشاور ٹرانسفر کرایا،اسی طرح سابق ڈی آئی جی بنوں اوّل خان کو بھی وہاں سے ٹرانسفر کرایا اگرچہ غفور آفریدی کی دور یزیدی میں رہنے والے بنوں کے لوگ اوّل خان کو مسیحا سمجھنے لگے تھے،اور حقیقت میں جو شخصیت پہلے پروفیسر جیسی شفیقیت سے بھرپور پوسٹ پر رہا ہوں وہ پولیس میں آکر بھی اپنا مشفقانہ رویہ تبدیل نہیں کرسکتے ہیں،ان کو بھی غیر فعال کردیا ہے،اس طرح شفیع اللہ گنڈہ پور جو ڈی پی او نارتھ وزیرستان ہیں کو بھی ابھی تک کوئی ترقی نہیں دی ہے اگرچہ اس اکیلے بندے نے شمالی وزیرستان جیسے نئے مرج شدہ ضلع میں پولیسنگ کی بنیاد رکھ کر وہاں پولیس کو تن تنہا اتنا مضبوط کیا کہ وہاں پولیس اور پولیس کی کارکردگی کی مثالیں دینے لگے ہیں لوگ، ایک نئے ضلع میں پولیس کو اتنا فعال کیا کہ مقامی لوگ پولیس کو مسیحا سمجھنے لگے ہیں،
ان قابل فخر پولیس افسران کو جیسے ایک ایجنڈے کے ذریعے کھڈے لائن لگایا جارہا ہے؟ایس پی کینٹ امان اللہ خان کو ٹریفک میں لگوا کر اس تجربے کار اور نڈر پولیس آفیسر سے گاڑیوں کی قطاریں سیدھی کرائی جارہی ہے،جبکہ اس کے بدلے ان حرام خوروں اور نامی گرامی بدنام زمانہ پولیس افسران کے مزے ہی مزے ہیں،چاہلوسی اور قدم بوسی میں یدطولی رکھنے والے افسران آج بھی اھم پوسٹوں پر تعینات ہوکر شکرگذاری کی نمازیں پڑھ کر شکرگذاری کی قیمت بھی ادا کررہے ہیں،یہ حضرات ہر پولیس آفیسر کو اپنے خول میں لیکر پھر اپنی مستیوں میں مست ہوجاتے ہیں،
نئے ایس ایس پی آپریشن یاسرافریدی اگرچہ بہت چاک وچوبند اور تجربہ کار آفیسر ہے،یقین واثق ہے کہ وہ خود کو ان ہر فن مولاوں سے محفوظ رہ کر اہل پشاور کو بھی ان جھوٹے مہربانیوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائینگے،خدا ھم سب کا حامی وناصر ہو،رشیدافاق خیبرنیوز پشاور سنٹر۔