پشاور ( دی خیبرٹائمز سپیشل رپورٹ ) نعمان خان کو وہ لمحہ یاد ہے جب اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے آبائی وطن افغانستان میں مزید نہیں رہ سکتا۔ 15 اگست کی صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول حاصل کرنے سے چند گھنٹے قبل، طالبان جنگجو نعمان خان کے آبائی شہر جلال آباد میں داخل ہوئے تھے، جو کابل سے تقریباً 120 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے،اور فوری طور پر شہر کی شاہراہوں پر امارت اسلامی افغانستان کے جھنڈے لگادیئے، مقامی طالبان نعمان خان کو بطور موسیقار جانتے تھے، طالبان جنگجو نعمان خان اور دیگر موسیقاروں کے اسٹوڈیوز میں گھس گئے ،اور تمام موسیقی کے آلات جمع کرکے جلادیئے۔نعمان خان کے مطابق اس دوران وہ رونے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسے گلوکاری اور ہارمونیم بجانے کا شروع سے ہی جنون کی حد تک شوق تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی اس کی مجبوری بھی بن گئی، کیونکہ اب یہی شوق اس کی زندگی کا پہیہ چلارہا ہے۔
افغانستان میں طالبان اقتدار میں آنے کے بعد طالبان موسیقی کو غیر شرعی قرار دے رہےہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ موسیقی کے فن سے منسلک افغان شہری کوئی دوسرا روزگار شروع کریں۔
نعمان خان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 22 سال سے موسیقی سے وابستہ ہے اب وہ کوئی دوسرا کاروبار نہیں کرسکتا، نہ ہی اپنے فن ترک کرنے کیلئے تیار ہے، اس لئے اس نے اپنے عزیز ملک افغانستان چھوڑنے کو ترجیح دیدی، اور اب وہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں زندگی کے تلخ ایام گزارنے پر مجبور ہے۔اب وہ دیگر درجنوں افغان موسیقاروں کے ساتھ پشاور میں مقیم ہے، جو طالبان کے خوف سے افغانستان کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔
افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین جان بچانے کی فکر میں پاکستان داخل ہوگئے ہیں، جو اب ایک نئے سرے سے زندگی کے سفر کی شروعات کرنا چاہتے ہیں، مگر پاکستان کو بھی معاشی مسائل نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اب یہ فنکار یا دیگر افغانی بھی معاشی بدحالی کے ساتھ زندگی کے ایام کاٹنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں مزید افغان مہاجرین کو پناہ دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے دفتر کے مطابق پاکستان میں 1.4 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں۔جبکہ ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ سے زائد غیر دستاویزی افغان باشندے مقیم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجرین سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران آئے تھے۔ اس کے بعد خانہ جنگی اور 2001 میں افغانستان پر امریکی بمباری کے بعد
آئے۔
کئی دہائیوں سے پاکستان دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی کی میزبانی کر رہا ہے۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ہزاروں مہاجرین اسپن بولدک / چمن کے راستےپاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال 10,800 نئے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر چمن بارڈر کراسنگ سے آئے ہیں۔ پاکستان میں داخل ہونے والوں میں سے اکثر کا تعلق ایسی کمیونٹیز سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں رہے تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔38 سالہ شمس راحیل نے طالبان حکومت کے ابتدائی پانچ دن روپوش رہنے کے بعد اپنے آبائی علاقے جلال آباد سے پاکستان کے ساتھ جنوبی سرحدی کراسنگ اسپن بولدک تک 15 گھنٹے کا سفر کیا۔ راحیل روایتی افغانی پشتو آلات موسیقی میں شہنشاہ کا لقب حاصل کرنے والا رباب بجاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے مقبول ترین پشتو گلوکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔وہ افغان ٹیلی ویژن چینل لمر ٹی وی کے مقبول دہ خندا شپا پروگرام پر ہفتے میں تین بار نمودار ہوتے۔
شمس راحیل کہتے ہیں کہ “میں نے داڑھی بڑھائی، اپنی شکل بدلی، سر پر چادر لی اور وہاں سے نکل آیا،” وہ اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔ “میرے پاس کچھ نہیں تھا، صرف پہنے ہوئے کپڑے تھے، یہاں تک کہ ذاتی رباب بھی وہیں چھوڑ آیا۔
پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے کئی دن ڈپریشن میں گزارے مسلسل ایک ہفتے تک روتے رہے، کہ اچانک حالات تبدیل ہوگئے، پورا نظام چند دنوں میں اکھاڑ پھینکنا ان کی سمجھ سے بالاتر ہے، جس کے قیام کیلئے افغانیوں نے کئی سال محنت کی۔
راحیل کہتے ہیں کہ موسیقی ان کی رگوں میں رچی بسی ہے۔ 38 سالہ زندگی میں 28 سال اسی فن میں صرف کئے ہیں، اب موسیقی چھوڑنا اس کیلئے آسان نہیں، موسیقی کے بغیر وہ افغانستان میں کیسے جی سکتے ہیں۔ شمس راحیل ان کے شاگردوں کے ساتھ پشاور میں رہنے پر مجبور ہوگیا ہے، جبکہ ان کا باقی خاندان افغانستان کے شہر جلال آباد میں مقیم ہے۔ اپنے بچوں سے دور ہونا ایک مشکل فیصلہ ہے، لیکن جب ہر طرف نا اُمیدی کے بادل چھا جائیں، تب زندہ رہنے کیلئے یہ مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
تیس(30) سالہ ضیاء الرحمان جو افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک بڑے اسٹوڈیو میں زندگی کے پرسکون ایام گزار رہے تھے، طالبان کے خوف سے 12 روز تک ان کے گھر میں رہے طالبان نے ان کااسٹوڈیو توڑ دیا، آلات موسیقی جلاڈالے۔ پشاور آکر بھی ان کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ افغان طالبان نے ان کے شوق اور دھندے کو غیر شرعی فعل قرار دیا ہے، طالبان شاید بہت ساری چیزوں کو حلال سے حرام بنائیں یا حرام سے حلال یہ ان کا اپنا مسلہ ہے، لیکن موسیقی کو انہوں نے غیر شرعی قرار دیکر سب کو وارننگ دیدی ہے، اب فنکاروں کیلئے افغانستان میں رہنا ممکن نہیں ہے، طالبان نے نرم مزاج رکھنے کا بار بار اعلان کیا ہے، مگر طالبان کی سابقہ تاریخ صرف سخت رویہ رکھنے سے جڑا جاتا ہے۔
معروف ہارمونیم بجانے والے فنکار ضیاالرحمان بھی یہی کہتے ہیں کہ کسی کو بھی اپنا گھر بار، بیوی بچوں بہن بھائیوں کو چھوڑنا بدترین لمحہ ہوتا ہے، لیکن جب بات آجاتی ہے موت و حیات کی؟ پھر انسان ایسے تلخ فیصلے اور اقدامات بھی اٹھاسکتاہے۔
افغانستان کو خیرباد کہنے والے موسیقاروں نے بتایا کہ اگر انہوں نے نیا پیشہ اختیار نہیں کیا تو طالبان جنگجوؤں کی طرف سے انہیں دھمکی ملی ہوئی تھی،
پندرہ 15سالہ گلوکار بلال افغان جن کا اپنا نام گل ولی شاہ ہے نے بتایا کہ اس کا آبائی علاقہ خوست ہے، جہاں طالبان نے اس کے گھر جاکر بتایا کہ وہ فن کو خیرباد کہہ دیں، نہیں تو ایسے لوگوں کے خلاف وہ سخت کارروائیاں کریں گے، اس دھمکی کے بعد بلال افغان فوراً گھر سے نکل گیا اور چمن کے راستے پاکستان آنے کی کوشش شروع کردی، سپین بولدک پر متعین پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے اسے منع کیا، تاہم اس نے موبائل میں موجود اپنی گائی ہوئی غزلیں اور گانے دکھائے، اور بتایا کہ افغانستان میں طالبان سے اس کی زندگی کو خطرہ ہے، اس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں نے اسےپاکستان آنے کی اجازت دیدی۔
ایسے ہی کئی دیگر فنکاروں کی کہانیاں ہیں، جنہوں نے پاک افغان بارڈر پار کرنے کیلئے بھکاریوں کا بھیس بنایا۔
پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے کسی بھی نئے افغان مہاجر کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا اور کچھ ایسے افراد کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا ہے جو بغیر دستاویزات کے سرحد پار کر گئے ہیں۔
پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہےکہ افغان مہاجرین کے حوالے سے ملکی پالیسی ابھی نہیں اس سے قبل کی ہے۔حکومت کی کوشش ہےکہ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے ملک پہنچایا جائے، اور غیر قانونی بغیر دستاویزات کے رہنے والوں کو بھی افغانستان ڈپورٹ کیاجائے، وہ آج بھی افغان مہاجرین کی خدمت کررہے ہیں، اور اب افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔ وہ کسی بھی طوراپنے دوست اور پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ امن و امان سمیت مالی تعاون بھی جاری رکھینگے۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کی ہے جنہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ بین الاقوامی تحفظ کے خواہاں افراد کو ان کے آبائی ملک میں واپس نہیں جانا چاہیے جہاں ان کی نسل، مذہب، قومیت کی وجہ سے ان کی زندگی یا آزادی خطرے میں ہو۔
افغانستان میں ساز سازی اور مخر موسیقی دونوں کی ایک بھرپور ثقافتی روایت ہے، جو ایرانی، وسطی ایشیائی اور برصغیر کی ہندوستانی شکلوں سے متاثر ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا روایتی اور جدید الیکٹرانک اور مقبول موسیقی کی زیادہ جدید شکلیں پروان چڑھیں۔ تاہم اب شمس راحیل اور ان کے ساتھی موسیقاروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان آنے کے بعد اپنے ہی فن کے ذریعے سے روزی کمانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ انہیں ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ شمس راحیل کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا ایک بھائی آیا ہوا ہے، جس کا مستقبل فن کی دنیا سے وابستہ ہے، ان کے پاس گھر نہیں، کوئی دوسرا کاروبار نہیں، یہاں کوئی کام نہیں ہے،” وہ کہتے ہیں۔ “ہمارے پاس گھر نہیں ہے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی یہاں میرے ساتھ ہے”۔
جلال آباد سے تعلق رکھنے والے گلوکار نعمان خان اپنی اہلیہ اور نوجوان بیٹے کے ہمراہ ایک رشتہ دار کے گھر کھلے برآمدے میں سو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب سے میں آیا ہوں، میں نے ایک روپیہ نہیں کمایا ہےاور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کرنے کا موقع نظر آتا ہے”۔
پشاور میں پناہ حاصل کرنے والا ہر افغان فنکار انتہائی مشکل حالات کا سامنا کررہا ہےکیونکہ یہاں کے مقامی فنکار بھی مالی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کے بھی معاشی مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔افغان فنکارتو جان بچاکر پاکستان داخل تو ہوگئے لیکن اب یہاں وہ معاشی مسائل میں پھنس گئے ہیں، ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟؟؟ شاید اس کا حل یا جواب کسی کے پاس نہیں ؟؟؟
